افریقی ملک بوٹسوانہ میں تعلیم کے بہتر ہوتے ہوئے امکانات
25 جولائی 2010بی ہیلا سیکیرے نے کبھی خواب بھی نہیں سوچا ہو گا کہ ایک دن وہ کسی یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیمی سند حاصل کر پائے گا۔ لیکن اب افریقہ کے سب سے پسماندہ ملکوں میں شمار ہونے والے بوٹسوانہ کے ایک گاؤں میں اپنا بچپن گزارنے والے اس شہری کو یہ امکان میسر ہے کہ وہ خود کو پسماندگی کے اندھیروں سے نکال سکتا ہے۔
بی ہیلا کا تعلق بوٹسوانہ میں سان کےگھنے جنگلات میں رہنے والے ان باشندوں سے ہے، جو عرف عام میںBush peopleکہلاتے ہیں۔
اس28سالہ نوجوان کا کہنا ہے کہ بوٹسوانہ میں سان بچوں کے لئے اسکول کی تعلیم حاصل کرنا پہلے تو ممکن ہی نہیں تھا لیکن بعد میں، جب ان بچوں کو کوئی امکان نظر آیا تو انہیں قریب ترین اور بہت سادہ سے اسکول تک پہنچنے کے لئے بھی ہر روز کئی کلو میٹر پیدل سفر کرنا پڑتا تھا۔
اب بی ہیلا سیکیرے سان علوم کے تحقیقاتی مرکز میں ترقیاتی علوم کے شعبے میں اپنا ماسٹرز ڈگری کورس مکمل کر رہا ہے اور اسے خوشی ہے کہ اس نے گزشتہ سال شروع کئے گئے اس نئے تحقیقی مرکز کے ذریعے یونیورسٹی کی سطح کی ڈگری حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔
یہ ریسرچ سینٹر یونیورسٹی کے کیمپس میں قائم ہے، اسے بہت سی غیرملکی یونیورسٹیوں کا تعاون بھی حاصل ہے اور بی ہیلا سیکیرے کا کہنا ہے کہ وہ بہت خوش ہے کہ عنقریب ہی اپنی ایم اے کی تعلیم مکمل کرتے ہوئے وہ عام لوگوں سے بوٹسوانہ میں سان نسل کے ایک اعلی تعیم یافتہ نوجوان کے طور پر مخاطب ہو سکے گا۔
بوٹسوانہ کے انتہائی پسماندہ علاقوں میں اب بہت سے نوجوانوں کو یہ امکان ملا ہے کہ وہ تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوتے ہوئے خود کو ترقی کی راہ پر گامزن کر سکیں اور اس میں سان علوم کا ریسرچ سینٹر اور یونیورسٹی آف بوٹسوانہ اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
رپورٹ : عصمت جبیں
ادارت : عاطف توقیر