اعتدال پسند طالبان سے بات کی جا سکتی ہے، باراک اوباما
8 مارچ 2009امریکہ کے پہلے سیاہ فام صدر باراک اوباما نے اخبار کو دیے گئے انٹرویو میں یہ بھی کہا کہ امریکہ افغانستان میں جنگ نہیں جیت رہا ہے اور وہاں کے حالات عراق سے زیادہ پیچیدہ ہیں۔
دریں اثناء افغانستان کے صدر حامد کرزئی نے باراک اوباما کے اس بیان کا خیر مقدم کیا ہے اور کہا ہے کہ ان کی حکومت عرصے سے ان طالبان کے ساتھ مذاکرات کی حمایت کر رہی ہے جو دہشت گرد نہیں ہیں۔
افغانستان کے دارلحکومت کابل میں خواتین کے بین الاقوامی دن کے موقع پر منعقد کی گئی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے افغان صدر کرزئی نے کہا کہ وہ لوگ جو اپنے گھروں سے بے دخل ہونے کے بعد مجبوراً طالبان کا ساتھ دے رہے ہیں وہ حکومت کے ساتھ بات چیت کریں۔
یاد رہے کہ افغان صدر کرزئی نے سن دو ہزار پانچ میں ایک مصالحتی کمیشن تشکیل دیا تھا جس کا مقصد طالبان سے ہتھیار ڈلوانا تھا۔ افغان حکّام کے مطابق نسبتاً نچلے درجے کے کم از کم سات ہزار سات سو طالبان نے اس کے بعد ہتھیار حکومت کے حوالے کردیے تھے۔ تاہم طالبان عسکریت پسند حامد کرزئی کی مصالحتی پیشکش کو اب تک رد کرتے آ رہے ہیں۔
واضح رہے کہ امریکی صدر باراک اوباما نے جنوبی میں امریکہ کے چوالیسویں صدر کا حلف اٹھانے کے بعد افغانستان اور پاکستان کے حوالے سے امریکی پالیسی میں تبدیلی کا واضح اشارہ دیا تھا جس کے بعد انہوں نے اس علاقے کے لیے رچرڈ ہالبروک کو اپنا خصوصی نمائندہ مقرر کردیا تھا۔ امریکی صدر کا اعتدال پسند طالبان کے ساتھ بات چیت کا اشارہ غالباً اسی پالیسی پر عمل پیرا ہونے کی ایک کوشش ہے۔