1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’اسکرٹ کی لمبائی‘، چیف جسٹس کے جملے پر شدید بحث

عاطف توقیر
22 جنوری 2018

پاکستانی چیف جسٹس ثاقب نثار کی جانب سے ایک تقریب سے خطاب میں تقریر اور عورت کے اسکرٹ کی لمبائی‘ سے مماثلت سے متعلق جملے پر خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنوں کی جانب سے شدید تنقید کی جا رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/2rIVQ
Pakistan Oberster Gerichtshof in Islamabad
تصویر: Reuters/C. Firouz

ایک تقریب سے اپنے خطاب کے دوران پاکستانی عدلیہ عظمیٰ کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا تھا، ’’انہیں بتایا گیا ہے کہ تقریر کو کسی عورت کے اسکرٹ جیسا ہونا چاہیے، جو زیادہ لمبی ہو تو دلچسپی ختم ہو جاتی ہے اور بہت مختصر ہو تو اصل مدعا ہی حل نہیں ہوتا۔‘‘

پاکستان میں جنسی امتیاز کیوں بڑھ رہا ہے؟

خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے خلاف آواز اٹھانے والی کبریٰ خادیمی

پاکستانی مردوں کے خلاف سابق برطانوی وزیرکا بیان

چیف جسٹس کی تقریر کا یہ ٹکڑا سوشل میڈیا پر وائرل ہو گیا اور اس پر شدید تنقید کی گئی۔ قدامت پسند پاکستانی معاشرے میں پدرانہ رویے حاوی ہیں اور خواتین کو جنسی امتیاز سے عبارت ان رویوں کا سامنا روزمرہ کی بنیادوں پر کرنا پڑتا ہے۔ تاہم ملک کے چیف جسٹس کی جانب سے اس طرح کے جملے پر خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والوں کے ساتھ ساتھ عام افراد کی جانب سے بھی شدید تنقید دیکھی گئی ہے۔

ڈی ڈبلیو سے خصوصی بات چیت میں معروف کلاسیکی رقص کی ماہر شیماکرمانی نے کہا کہ ’یہ بیان کوئی مذاق نہیں بالکل معاشرے کے نہایت سنجیدہ اور بھیانک رویے کی نشان دہی کرتا ہے‘۔ ’’جب اس طرح کا ذمہ دار اور اعلیٰ عہدے پر براجمان کوئی شخص اس انداز کے جنسی امتیاز پر مبنی جملے ادا کرتا ہے تو اس سے باقی افراد کو یہ پیغام ملتا ہے کہ ایسا کہنا کوئی بڑی بات نہیں۔ اس طرح یہ رویے معاشرے میں نچلی سطح تک پہنچ جاتے ہیں۔‘‘

شیما کرمانی نے کہا کہ انہیں اور ان جیسے ہزاروں افراد کو چیف جسٹس کے اس بیان سے تکلیف پہنچی ہے اور چیف جسٹس ثاقب نثار کو اپنے اس بیان پر پاکستانی خواتین سے معذرت کرنا چاہیے۔ ’’دنیا بھر میں خواتین سے متعلق اقدار میں جس انداز کی مثبت تبدیلی حالیہ کچھ برسوں میں آئی ہے، ان کو دیکھتے ہوئے کسی بھی شخص کو ایسی کوئی بات کرنے سے احتراز برتنا چاہیے۔‘‘

خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی سرگرم کارکن نگہت داد نے بھی ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں چیف جسٹس ثاقب نثار کے اس بیان کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ بیان معاشرے میں موجود اس رویے کی نشان دہی کرتا ہے، جو سراسر جنسی امتیاز پر مبنی ہے۔ ’’کبھی لطیفوں کی صورت میں خواتین کو موضوع بنایا جاتا ہے اور کبھی عام بات چیت میں اسی انداز سے عمومی سے انداز میں عورت ہدف بنا لی جاتی ہے۔ چیف جسٹس کی جانب سے یہ بات مذاق کی صورت کرنا اور وہاں موجود افراد کے اس پر قہقہے یہ بتاتے ہیں کہ سماجی سطح پر یہ رویہ کس حد تک رائج ہو چکا ہے۔‘‘

معروف صحافی اور ٹی وی اینکر ندا فاطمہ نے اسی ویڈیو کو اپنے ٹوئٹر پیغام میں شیئر کرتے ہوئے لکھا ہے، ’’ چیف جسٹس صاحب، یہ سن 2018 ہے۔ جنسی امتیاز پر مبنی جملے بالکل ٹھیک نہیں۔ ایسا گھٹیا مذاق آپ کے عہدے کے شایان شان نہیں بلکہ یہ اس رویے کا عکاس ہے کہ ملک کے اعلیٰ ترین عہدوں پر بیٹھے افراد بھی جنسی امتیاز کی دلدل میں کس حد تک دھنسے ہوئے ہیں۔‘‘

پاکستان کی خواتین وکلا کی تنظیم کی جانب سے بھی چیف جسٹس کے اس بیان کی مذمت کی گئی ہے۔ اس تنظیم کے مطابق ملک میں عدلیہ کی سب سے بڑی شخصیت کی جانب سے اس انداز کا بیان ایک نہایت قابل افسوس امر ہے۔