اسپین میں خواتین پر گھریلو تشدد، ہزارہا شہریوں کا احتجاج
8 نومبر 2015میڈرد سے اتوار آٹھ نومبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق ہفتے کی شام کو شروع ہو کر رات گئے تک جاری رہنے والے اس احتجاجی مظاہرے میں ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے مردوں اور خواتین نے حصہ لیا۔
ان میں حقوق نسواں کے لیے سرگرم علاقائی سطح پر کام کرنے والی 380 غیر سرکاری اور سرکاری سطح پر کام کرنے والی 70 تنظیموں کے نمائندوں کے علاوہ ملک کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے لیڈر اور کارکن بھی شامل تھے۔ اس کے علاوہ اس احتجاج میں ٹرید یونینوں کے نمائندے اور صنفی مساوات کی جدوجہد میں شامل غیر حکومتی تنظیموں کے ارکان بھی شامل ہوئے۔
اس احتجاجی مظاہرے کا آغاز اینجلا گونزالیس نامی ایک ہسپانوی خاتون کے خطاب سے ہوا، جنہوں نے ان تمام خواتین کے حق میں آواز بلند کی، جو اسپین میں آج تک گھریلو تشدد اور صنفی امتیاز کی وجہ سے کیے جانے والے حملوں میں ماری جا چکی ہیں۔ اینجلا گونزالیس کی اپنی بیٹی کو بھی اس کے تشدد پسند سابق شوہر نے 2003 میں اس وقت قتل کر دیا تھا، جب وہ جیل میں سزا کاٹتے ہوئے حکام کی اجازت سے ایک بار اپنی بیوی کو ملنے آیا تھا۔
اس موقع پر اینجلا گونزالیس نے مظاہرے کے شرکاء کو بتایا کہ اسپین میں 1995 سے لے کر آج تک قریب 1400 خواتین مردوں کے ہاتھوں صرف اس لیے قتل ہو چکی ہیں کہ ان پر گھریلو تشدد کیا جاتا تھا یا پھر انہیں گھر سے باہر صنفی مساوات کے مخالف اہل خانہ یا رشتہ داروں نے مسلح حملوں کا نشانہ بنایا۔
یورپی یونین کے رکن ملک اسپین میں خواتین پر گھریلو تشدد اتنا عام ہے کہ صرف اس سال کے دوران اب تک وہاں پرتشدد مرد کم از کم 84 خواتین کو قتل کر چکے ہیں۔ اس مظاہرے میں ہسپانوی سوشلسٹ پارٹی کے سربراہ اور میڈرڈ کی ملکی پارلیمان میں اپوزیشن کے لیڈر پیدرو سانچیز اور حکمران پاپولر پارٹی کے کئی رہنما بھی شریک ہوئے۔
اس احتجاج میں شرکت کے لیے ہزاروں کی تعداد میں مظاہرین اسپین کے دیگر شہروں اور جزائر سے دارالحکومت میڈرڈ پہنچے۔ اس مظاہرے میں شریک ایک 34 سالہ مرد ماہر تعمیرات میگوئل ناوارو نے کہا، ’’میں اس لیے اس احتجاج میں شامل ہوا کہ ہسپانوی خواتین کو یہ واضح پیغام دیا جا سکے کہ گھریلو تشدد کے خلاف اپنی جنگ میں وہ اکیلی نہیں ہیں بلکہ ہسپانوی مردوں کی اکثریت بھی ان کے ساتھ ہے۔‘‘