اسرائیلی وزیرِ خارجہ کا دورہِ یورپ ناکام؟
8 مئی 2009اگر کہا جائے کہ يورپ اور اسرائيل کے مابين تعلقات سرد مہری کے شکار ہيں تو يہ مبالغہ آرائی ہوگی. ليکن يھ حقيقت ہے کہ اسرائيل ميں دائيں بازو کی حکومت کے قيام کے بعد يورپی يونين اور اسرائيل کے تعلقات ميں پائے جانے والی گرم جوشی ميں خاصی حد تک کمی واقع ہوئی ہے جس کی نشاندہی اسرائيل کے نئے وزير خارجہ آويگڈور ليبرمن کے يورپی دارلحکومتوں کے دورے پر ہوئی.
اگرچہ ليبرمن نے صرف اُن يورپی ممالک کا دورہ کيا جو دُشوارسياسی حالات ميں بھی اسرائيل کی حمايت کرتے رہے ہيں اور جو اسرائيلی سياست پر زيادہ تنقيد کرنے سے گريز کرتے ہيں. تاہم ليبرمن کا صرف اٹلی ميں کسی حد تک والہانہ استقبال ہوا. اطالوی وزير اعظم زيلويو برلسکونی اور اطالوی پارليمان کے صدر جيان فرانکوفينی جن کا جکھاو دائیں بازو کی طرف ہے، نے ليبر من کے ساتھ گرمجوشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملاقاتيں کيں. اس کے برعکس پیرس اور برلن ميں ليبرمن کا استقبال سردمہری کی فضا ميں ہوا.
اسرائیل کے وزير خارجہ کا فرانس کے صدر نيکولای سرکوزی اور جرمنی کے وزیر خارجہ فرانک والٹر شٹاين مائر کے ساتھ ملاقات کے بعد نہ تو ان ملاقاتوں کی تصاوير شائع ہوئيں اور نہ ہی صحافيوں سے انہوں نے بات چيت کی. تصاوير اور مشترکہ پريس بريفنگ کی بجائے جو سامنے آیا وہ اسرائیل کی حکومت کو جرمنی اور فرانس کے وزرائے خارجہ کی يہ تنبيہ تھی کہ مشرق وسطی ميں بحران کا حل محض دو رياستوں کا قيام ہے. يہ تنبيہ يورپ اسرائيلی تعلقات ميں يورپ کے لہجے میں سختی کی نشاندہی کرتی ہے.
رملا ميں معتدل فلسطينی عناصر سے بات چيت کے بہانے، اسرائيل کی سابق حکومت بہت عرصے تک بين القوامی برادری کی انکھوں ميں دھول جھونکتی رہی. اور ساتھ ساتھ اولمرٹ کی حکومت نے مشرقی يروشلم اور مغربی اُردن ميں يہودی آباد کاری کے عمل کوجاری رکھا.
اسرائیل ميں بنيامن نتن ياہو کی دائيں بازو کی حکومت کے قيام کے بعد سے ہی اسرائیل دو رياستوں کے حل کو باقاعدہ رد کرتارہا ہے. دوسری جانب يروشلم کے قوم پرست مير نير بارکت تقريبا ہر روز يروشلم کے مشرق ميں عربوں کے گھر مسمار کرتے ہوئے ان کی جگہ يھوديوں کے لئے سستے مکانوں اور پارکس کی تعميرکے عمل کو جار رکھ رہے ہيں.
يورپی سياست اب ان حقائق سے چشم پوشی نہيں کر سکتی اور اسی لئے نئی اسرائیلی حکومت پر دباو ڈال رہی ہے کہ وہ دورياستوں کے حل کی سياست اپنائے. اگر اسرائيل کی حکومت يورپی يونين کے ان مطالبات کو پورا نہيں کرتی تو امکان ہے کہ يورپی ممالک اسرائيل کے ساتھ اپنے تعلقات پر از سرنو غور کريں گے.