1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’’اسرائیلی فوج سے تفتیش نہیں کی جاسکتی!‘‘

10 اگست 2010

اقوام متحدہ نے ان افواہوں کو مسترد کیا ہے جن کے مطابق غزہ جانے والے فلوٹیلا پر اسرائیلی کمانڈوز کی کارروائی سے متعلقہ انکوائری میں اسرائیلی فوجیوں کو تفتیش میں شامل نہیں کیا جائے گا۔

https://p.dw.com/p/OgSP
تصویر: AP

سیکریٹری جنرل بان کی مون نے واضح کیا ہے کہ اس قسم کا کوئی بھی پس پردہ سمجھوتہ نہیں ہوا ہے۔ ادھر اسرائیلی وزارت دفاع نے کہا ہے کہ ان کی فوج اقوام متحدہ کے تحت کی جانے والی تحقیقات کے لئے دستیاب نہیں ہوں گی۔

انکوائری کے لئے چار رکنی پینل کا اعلان گزشتہ ہفتے کیا گیا تھا۔ اس پینل کی سربراہی نیوزی لینڈ کے سابق وزیر اعظم جیفری پالمر کر رہے ہیں جبکہ دیگر ارکان بنیادی طور پر اسرائیل اور ترکی کے سینیئر سفارتکار ہیں۔

اقوام متحدہ کے صدر دفتر میں ماہانہ پریس کانفرنس کے موقع پر بان کی مون نے بتایا کہ پینل کی بنیادی ذمہ داری واقعے سے متعلق قومی سطح پر تحقیقات کا جائزہ لینا اور متعلقہ مقامی حکام کے ساتھ رابطے میں رہنا ہے۔ سیکریٹری جنرل کے مطابق اس سے بڑھ کر اگر کسی چیز کی ضرورت پڑتی ہے تو اس بارے میں وہ آپس میں بات چیت کریں گے اور حکومتی اہلکاروں سے رابطے میں رہیں گے۔

Benjamin Netanyahu vor dem Untersuchungssausschus Flash-Galerie
اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو اسرائیلی تحقیقاتی کمیشن کے سامنے بیان ریکارڈ کرواتے ہوئےتصویر: AP

ترکی اور اسرائیل دونوں اپنی اپنی سطح پر اس واقعے کی تحقیقات کر رہے ہیں۔

بان کی مون نے صحافیوں کو بتایا کہ پینل منگل کو اپنے کام کا آغاز کردے گا اور یہ کہ اس پینل کو بہت بڑا مینڈیٹ حاصل ہے۔ سفارتی ذرائع کے مطابق ابھی تک پینل کو تخویص کئے گئے اختیارات کی نوعیت غیر واضح ہے۔ ترکی سمیت بیشتر ممالک نے اسرائیل کی جانب سے تحقیقات کو مسترد کر رکھا ہے۔

اقوام متحدہ کے لئے امریکی سفیر سوزان رائس نے گزشتہ ہفتے یہ کہہ کر ترکی کے غصے کو بڑھادیا تھا:’’یو این کی تحقیقات ملکی سطح پر جاری تحقیقات کا نعم البدل نہیں۔‘‘

31 مئی کے اس واقعے میں ترک شہریوں کی ہلاکت کے بعد سے اسرائیل اور ترکی کے تعلقات کشیدہ ہیں۔ اسرائیلی کمانڈوز کی ’جارحانہ کارروائی‘ کی عالمی سطح پر بھی مذمت کی گئی اور بین الاقوامی دباؤ کے نتیجے میں اسرئیل غزہ پٹی کے محاصرے میں نرمی پر بھی مجبور ہوا۔

Aktivisten der Hilfsflotte in Gaza Flash-Galerie
غزہ کے لئے امداد لے جانے والے بحری جہاز کے اندر کا منظر، فائل فوٹوتصویر: AP

اسرائیلی حکومت نے یو این کی جانب سے اس واقعے کی تحقیقات کے اعلان کو ابتدا میں خوشدلی سے تسلیم کیا تھا لیکن اب اسرائیلی حکام کی جانب سے دھمکی دی گئی ہے کہ اگر یو این کی جانب سے فوجیوں کو پینل کی جانب سے تحقیقات کے لئے بلایا گیا تو تل ابیب حکومت اس سلسلے میں تعاون ختم کردے گی۔

دوسری طرف غزہ کے محصور فلسطینیوں کے لئے بین الاقوامی سطح پر ہمدردی اور مدد کے جذبے میں شدت دیکھی جارہی ہے۔ روجر فاؤلر نامی نیوزی لینڈ کے 61 سالہ شہری نے اگلے مہینے ایک امدادی بحری بیڑہ لے کر غزہ جانے کا اعلان کر رکھا ہے۔ فاؤلر نے اسرائیل کی جانب سے اس فیصلے کو اشتعال انگیز قرار دینے کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل ایسا ملک ہے، جس نے غزہ کے شہریوں کو قیدی بنا رکھا ہے اور ان کے لئے امداد لے جانے والے رضا کاروں پر گولیاں برسائی ہیں۔

رپورٹ: شادی خان سیف/خبر رساں ادارے

ادارت: گوہر نذیر گیلانی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں