1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینیوں کی تعلیم کے لیے جدوجہد

امتیاز احمد28 جنوری 2014

فلسطینی قیدیوں کو صرف ہیبریو یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرنے کی اجازت تھی تاکہ نصاب کے مواد پر نظر رکھی جا سکے۔ ان قیدیوں کے لیے خطرناک تصور کیے جانے والے مضامین منع تھے، مثال کے طور پر فزکس، کیمسٹری اور سیاسی قوم پرستی۔

https://p.dw.com/p/1AyRh
تصویر: Getty Images

جمال ابو محسن انیس سو اکیانوے میں فلسطین کی ایک یونیورسٹی میں فرسٹ ایئر کا طالبعلم تھا، جب اُسے ایک چھہتر سالہ اسرائیلی کو چھرا گھونپ کر ہلاک کرنے کے جرم میں سزا سنائی گئی تھی۔ ابو محسن کو حال ہی میں اسرائیلی جیل سے رہا کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے جیل کی سلاخوں کے پیچھے رہتے ہوئے یونیورسٹی سے دو ڈگریاں حاصل کیں اور اب زندگی کا نیا آغاز کرنا چاہتے ہیں۔

ابو محسن کا شمار ان سینکڑوں فلسطینیوں میں ہوتا ہے،جنہوں نے جیل میں رہتے ہوئے اپنا زیادہ تر وقت اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے وقف کیا ہے۔ اسرائیل کی طرف سے یہ تعلیمی نظام دو عشرے قبل شروع کیا گیا تھا اور سن 2011ء تک جاری رہا۔ فلسطینی حکام کے مطابق اس کے بعد سے اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینی خفیہ طور پر ایک اپنا نظام تعلیم چلا رہے ہیں، جسے مغربی کنارے اور غزہ میں واقع یونیورسٹیوں کی حمایت حاصل ہے۔

اسرائیل کے خلاف فلسطینی بغاوت کے مشہور لیڈر مروان البرغوتی بہت مشہور قیدی ہیں۔ وہ جیل میں ماسٹرز ڈگری کا ایک کورس ’اسرائیل اسٹڈیز‘ کے عنوان سے کرواتے ہیں اور ابو محسن بھی ان کے سینکڑوں طالبعلموں میں سے ایک ہے۔ مغربی کنارے میں اپنے گھر پر موجود بیالیس سالہ ابو محسن کے مطابق یہ تعلیم ہی تھی جس کی وجہ سے وہ 23 برس جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزارنے میں کامیاب رہے ہا، ’’جب میں جیل میں گیا تو میرے سامنے صرف دو ہی راستے تھے، یا تو میں اپنی زندگی کو بامقصد بناؤں یا پھر اپنی صلاحیتوں کو ضائع کر دوں۔‘‘ابو محسن نے اپنی بیچلرز ڈگری اسرائیل کی اوپن یونیورسٹی ہیبریو سے حاصل کی اور بعد ازاں ماسٹرز ڈگری فلسطین کی القدس یونیورسٹی سے۔

اسرائیل نے اپنی جیلوں میں یونیورسٹی کورسِز کا آغاز فلسطینی قیدیوں کی چودہ دن کی بھوک ہڑتال کے نتیجے میں نوّے کی دہائی میں کیا تھا۔ مغربی کنارے، غزہ پٹی اور مشرقی یروشلم کے علاقے پر اسرائیلی قبضے کے بعد سے اسرائیل مخالف سرگرمیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اندازوں کے مطابق اس وقت تقریباﹰ پانچ ہزار فلسطینی اسرائیلی جیلوں میں قید ہیں اور ان میں سے سینکڑوں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

سن 2000 ء سے 2003ء کے درمیان اسرائیلی جیلوں کی کمشنر کے طور پر خدمات انجام دینے والی عورت اداتو کہتی ہیں، ’’ اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینیوں کو وہی حقوق حاصل ہیں، جو دنیا کی دیگر جیلوں میں موجود قیدیوں کو دیے گئے ہیں۔‘‘ تاہم اس کے برعکس قیدیوں کے حقوق کے لیے سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ اسرائیلی جیلوں میں نافذ قواعد و ضوابط سخت ہیں اور قیدی متعدد مرتبہ وسیع پیمانے پر قیدیوں کی بھول ہڑتال کرچکے ہیں۔

عورت اداتو کہتی ہیں کہ ان کے دور میں قیدیوں کو صرف ہیبریو یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرنے کی اجازت تھی تاکہ نصاب کے مواد پر پر نظر رکھی جا سکے، ان کے مطابق فلسطینی قیدیوں کے لیے خطرناک تصور کیے جانے والے مضامین منع تھے، مثال کے طور پر فزکس، کیمیسٹری اور سیاسی قوم پرستی۔ وہ کہتی ہیں کہ اس تعلیمی پروگرام کے تحت ان قیدیوں کو بھی تعلیم دی گئی، جو ممکنہ طور پر فلسطینی سیاست میں اہم عہدے سنبھال سکتے تھے۔ یہ لوگ عبرانی زبان روانی سے بول سکتے تھے اور انہیں اسرائیلی معاشرے کی سمجھ بوجھ بھی تھی، بعد ازاں ان قیدیوں نے امن مذاکرات کی بحالی میں کردار بھی ادا کیا۔

اسرائیلی تنظیم الماگور کا کہنا ہے کہ سزا یافتہ قاتلوں کو پڑھائی کی سرے سے اجازت ہی نہیں ہونی چاہیے۔ یہ سرائیلی ایسوسی ایشن اُن افراد نے بنائی ہے، جن کے رشتہ دار مختلف عسکری حملوں میں ہلاک ہو چکے ہیں۔ اس تنظیم کے سربراہ مائیر انڈور کا کہنا ہے، ’’ یہ بہت ہی بنیادی اصول ہے، جو افراد ہلاک ہونے کی وجہ سے تعلیم حاصل نہیں کر پائے، ان کے قاتلوں کو بھی تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ ہمیں اسرائیلی جیلوں میں اچھی زندگی کا انتظار کرنے والوں کو سخت پیغام دینا ہوگا۔‘‘

سن 2011ء میں اسرائیل نے قیدیوں کو دی گئی مراعات واپس لینے کا اعلان کیا تھا۔ اس کی وجہ اغوا شدہ اسرائیلی فوجی گیلاد شالیت کی غزہ میں موجودگی بتائی گئی تھی، بعدازاں گیلاد شالیت کو رہا کر دیا گیا تھا لیکن قیدیوں سے لی گئیں مراعات واپس نہیں کی گئیں۔

نیوز ایجنسی اے پی سے گفتگوکرتے ہوئے قیدیوں کے امور کے فلسطینی وزیر عیسیٰ کراکے کا کہنا تھا کہ اسرائیل میں فلسطینی قیدی فلسطینی یونیورسٹیوں کے تعاون سے ’خفیہ طور پر‘ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا، ’’ تعلیم حاصل کرنا قیدیوں کا بنیادی حق ہے، اگر اسرائیلی اس حق کو مسترد کرتے ہیں تو ہمیں اس کا بندوبست کرنا ہوگا۔‘‘

ابو محسن ان 104 قیدیوں میں سے ایک ہیں جو حال ہی میں امریکی ثالثی کے تحت امن مذاکرات کے دوبارہ آغاز کے سلسلے میں رہا ہوئے تھے۔ وہ ان دنوں جاب کی تلاش میں ہیں۔ ان کا کہنا ہے، ’’ تنازعات کو صرف فوجی طاقت سے حل نہیں کیا جا سکتا، ہمیں اپنی سرزمین کی آزادی کے لیے دوسرے راستے بھی اختیار کرنا ہوں گے۔ اقوام متحدہ نے اسرائیل کو بنایا اور اب فلسطینی ریاست بنانے کی ضرورت ہے۔ ہمارے پاس بھارت میں گاندھی اور ساؤتھ افریقہ میں منڈیلا کی مثالیں موجود ہیں، ہمیں یہ راستہ بھی آزمانا ہوگا۔‘‘