اسرائیلی اور فلسطینی براہ راست مذاکرات پر تیار
21 اگست 2010امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کا کہنا ہے کہ صدر باراک اوباما اسرائیلی وزیر اعظم اور فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس کی قیادت کے قائل ہیں، اور اسی لئے انہوں نے دونوں رہنماؤں کو واشنگٹن مدعو کیا ہے۔
اُدھر فلسطین لبریشن آرگنائزیشن نے اسرائیل کے ساتھ واشنگٹن امن مذاکرات کی امریکی دعوت قبول کر لی ہے۔ امریکہ اور دیگر عالمی طاقتوں نے فریقین کے درمیان براہ راست مذاکرات کے لئے دوستمبر کی تاریخ تجویز کر رکھی ہے۔
فلسطین اتھارٹی کے صدر محمود عباس کے ایک معاون یاسر عبد ربہ نے پی ایل او کی پالیسی ساز ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس کے بعد صحافیوں کو بتایا کہ فلسطینیوں نے واشنگٹن امن مذاکرات کی دعوت قبول کر لی ہے۔ پی ایل او کا یہ اجلاس جمعہ کو رات گئے اختتام کو پہنچا۔
یاسر عبد ربہ نے کہا، ’پی ایل او کی ایگزیکٹو کمیٹی نے اسرائیل کے ساتھ براہ راست مذاکرات کی بحالی کو قبول کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ یہ فیصلہ مشرق وسطیٰ کے بین الاقوامی گروپ اور امریکہ کی دعوت کے تناظر میں کیا گیا ہے۔‘
قبل ازیں واشنگٹن میں امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے اعلان کیا کہ اسرائیلی اور فلسطینیوں کے درمیان براہ راست مذاکرات کا آغاز دو ستمبر کو ہو گا اور اس دوران ایک سال میں آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے لئے معاہدے کی کوشش کی جائے گی۔
اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو پہلے ہی براہ راست مذاکرات کے لئے امریکی دعوت کا خیرمقدم کر چکے ہیں۔
محمود عباس کے معاون یاسر عبد ربہ نے راملہ میں صحافیوں کے لئے پی ایل او کی مرکزی کمیٹی کا اعلامیہ پڑھا۔ خیال رہے کہ پی ایل او کی اس کمیٹی میں فلسطینیوں کے مرکزی دھڑے شامل ہیں تاہم غزہ کو کنٹرول کرنے والی حماس اس کا حصہ نہیں ہے۔
کمیٹی کے اعلامئے میں کہا گیا ہے کہ براہ راست مذاکرات کی دعوت قبول کرنے کا مقصد فلسطینی علاقوں کی حتمی حیثیت پر تمام حل طلب سوالوں کا حل ہے، جن میں مستقبل کی فلسطینی ریاست کی سرحدیں، پناہ گزینوں کے لوٹنے کا حق اور یروشلم بھی شامل ہے۔
ایگزیکٹو کمیٹی کا کہنا ہے کہ اس کے فیصلے کی بنیاد مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں یہودی آبادکاری پر یورپی یونین، اقوام متحدہ، امریکہ اور روس پر مشتمل مشرق وسطیٰ کے عالمی گروپ کا موقف ہے۔
رپورٹ: ندیم گِل
ادارت: عدنان اسحاق