1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایک یہودی خاتون اور ایک فلسطینی

7 مئی 2008

14مئی سن 1948ء کو اسرائیل کے قیام کی صورت میں جنگ سے تباہ شُدہ یورپ کے بہت سے یہودی پناہ گزینوں کو تو ایک نیا وطن مل گیا لیکن بے شمار فلسطینیوں کو اپنے وطن سے محروم ہونا پڑا۔

https://p.dw.com/p/Dvpt
اسرائیلی بچے اپنے یومِ آزادی کی تقریب کے لئےآتش بازی کے سائے میں رقص کی ریہرسل کرتے ہوئےتصویر: AP

پچاسی سالہ یہودی خاتون اَوی تال بن خورِین سن1923ء میں جرمن شہر Eisenach میں پیدا ہوئیں۔ تب اُن کا نام ایرِیکا فاکن ہائیم تھا۔ نو عمری ہی میں اُنہیں اپنے یہودی مذہب اور صیہونیت کے ساتھ لگاؤ پیدا ہو گیا تھا۔ جرمنی میں نازی سوشلسٹوں کے برسرِ اقتدار آنے کے تین سال بعد ہی اِس یہودی لڑکی نے جرمنی چھوڑنے اور فلسطین جانےکا فیصلہ کیا۔

’’مَیں نے تیرہ سال کی عمر میں نقل مکانی کی اور یہاں آ کر فلسطینی شہریت اختیار کر لی۔ یہ سن 1936ء کی بات ہے۔‘‘

حائفہ کی بندرگاہ پر اُترنے کے بعد اَوی تال جرمن تارکین وطن کے قائم کردہ قصبے کِیریات بیالِیک میں پہنچیں، جہاں نو عمر یہودیوں کے لئے ایک یُوتھ ہوسٹل موجود تھا۔ جب نومبر 1947ء میں فلسطین کی تقسیم سے متعلق اقوامِ متحدہ کا فیصلہ سامنے آیا اور ایک سال بعد ریاست اسرائیل قائم ہوئی تو اَوی تال یروشلم میں تھیں۔ اِسی دوران اُن کی جرمن شہر میونخ سے تعلق رکھنے والے مذہبی فلسفے کے ماہر شالوم بن خورِین کے ساتھ شادی بھی ہو چکی تھی۔ اُس زمانے کو یاد کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں:

’’تب یہاں جشن کا سا سماں تھا کہ اب ہماری اپنی ایک ریاست ہو گی۔ یہ بہت ہی چھوٹی سی ریاست تھی لیکن ہم نے سوچا کہ چھوٹی سہی، پَر اپنی تو ہے۔‘‘

دوسری جانب 14مئی 1948ء کے دن سے ہی فلسطینیوں کی گھر بدری کا عمل شروغ ہو گیا۔ وہ اِسے یومِ نقبہ یا آفت کا دِن قرار دیتے ہیں۔ اُس روز جن فلسطینی خاندانوں کو اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا، اُن میں سے ایک خاندان فواض ابُو سِتہ کا تھا، جو آج کل غزہ میں رہتے ہیں۔

’’ میرا تعلق ایک بدّو قبیلے سے ہے اور ہم بِیر شے وا کے علاقے میں رہا کرتے تھے، جس کی سرحدیں غزہ سے ملتی تھیں۔ پھر لیکن اُنیس سو سینتالیس اڑتالیس کا دَور آیا اور دیکھتے ہی دیکھتے پورے ابو سِتہ قبیلے کو زبردستی اُس گاؤں سے نکال دیا گیا۔

اِس گاؤں پر تین اطراف سے حملہ کیا گیا۔ قبیلے کے چار سو سے زیادہ اراکین نے بھاگ کر نواحی غزہ میں پناہ لی۔ یہیں پر 1953ء میں فواض کا جنم ہوا۔ اُس کی پرورِش ایک ایسے مہاجر کے طور پر ہوئی، جسے اُمید تھی کہ ایک روز وہ اپنے قبیلے کے پرانے علاقے میں لَوٹ کر ضرورجائے گا۔ لیکن کئی برس جرمنی میں رہنے کے بعد، جہاں اُس کی شادی بھی ایک جرمن خاتون سے ہوئی، فواض کی انپے آبائی وطن واپسی کی اُمیدیں دم توڑ چکی ہیں۔

’’ مَیں فلسطینی معاشرے کے اُس طبقے کا نمائندہ ہوں، جن کے خیال میں اب وطن واپسی ممکن نہیں۔ یہ ایسے فلسطینی دانشور اور حقیقت پسند لوگ ہیں، جو اقلیت میں ہیں اور جو یہ سمجھتے ہیں کہ طاقت کے موجودہ توازُن کے ساتھ آج یا مستقبل قریب میں واپسی ناممکن ہے۔‘‘