اسرائیل کے ساتھ فائر بندی معاہدے کی توسیع نہیں ہوگی: حماس
19 دسمبر 2008اسرائیل کے مطابق گزشتہ ہفتے کے دوران فلسطینی عسکریت پسندوں کی طرف سے40 کے قریب راکٹ فائر کئے جا چکے ہیں جبکہ اسرائیل کی جوابی کارروائی میں متعدد افراد زخمی اور ایک شخص کے ہلاک ہونے کی اطلاع ہے۔ حماس کی جانب سے جنگ بندی معاہدے میں توسیع کو خارج از امکان قراردیا جا چکا ہے۔
حماس کے عسکری بازو کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ حماس باقاعدہ طور پر اس معاہدے کے خاتمے کا اعلان کرتی ہے کیونکہ اس معاہدے کی روح کے مطابق اس پر عمل ممکن نہیں بنایا گیا۔ معاہدے کے خاتمے کے ساتھ ہی حماس اور دیگر عسکریت پسند گروپوں نےکہا ہے کہ انہوں نے اسرائیل کی جانب سے کسی ممکنہ فوجی کارروائی کے جواب کے لئے تیاریاں بھی شروع کر دی ہیں۔
حماس کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے طاقت کے استعمال کی کسی بھی کوشش سے ایک بڑی جنگ کے دروازے کھل جائیں گے اور اس کا موثر جواب دیا جائے گا۔ حماس نے الزام لگایا کہ چونکہ اسرائیل نے امن معاہدے کے دوران غزہ کی پٹی کو خوراک اور دیگر اشیائے خوراک کی ترسیل بند کئے رکھی، سو اب کسی بھی صورت اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ آگے نہیں بڑھایا جائے گا۔
اسرائیلی وزرات خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ امن دونوں فریقوں کے حق میں بہتر ہے۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ اسرائیل چاہتا ہے کہ یہ معاہدہ آگے بڑھایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ امن معاہدے کے باوجود حماس کی جانب سے اسرائیلی علاقوں پر راکٹ حملوں کا سلسلہ جاری رہا۔ اس سےقبل اسرائیلی وزیر اعظم کے ترجمان نے بھی ایک بیان میں کہا تھا کہ پچھلے ہفتے کے اختتام پر غزہ سے اسرائیلی علاقوں پر تقریبا 30 راکٹ داغے گئے۔ انہوں نے واضح کیا کہ فلسطینی علاقوں سے تشدد کے یہ واقعات ناقابل برداشت ہیں۔
ان حالات میں یورپی یونین کی جانب سے ایک بیان میں دونوں فریقوں کی جانب سے اشتعال انگیز کارروئیوں سے گریز کرنے کے لئے کہا گیا ہے۔ اسرائیل اور غزہ پٹی کے درمیان تناؤ میں پچھلے ایک ماہ کے دوران اس وقت سے تیزی سے اضافہ ہوا جب فلسطینی علاقوں سے راکٹ حملوں کے جواب میں اسرائیلی فوج نے بھی کارروائی شروع کر دی تھی۔
دوسری جانب فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس امریکی دارالحکومت واشنگٹن پہنچ گئے ہیں جہاں وہ مدت صدارت مکمل کرنے والے امریکی صدر جورج بُش سے آج الوداعی ملاقات کریں گے۔ امریکی صدر سے ملاقات کے علاوہ محمود عباس وزیر خارجہ کونڈو لیزا رائیس سے بھی ملیں گے۔