اسرائیل اور نیٹو ایک دوسرے کے اور قریب آ گئے
4 مئی 2016اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے کابینہ کے اجلاس سے قبل کہا ،’’میں اعلان کرتا ہوں کہ اسرائیل نیٹو کے دعوت نامے اور مستقبل قریب میں دفتر کھولنے کی پیشکش کو قبول کرتا ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا،’’دنیا کے مختلف ممالک دہشت گردی کے خلاف اسرائیلی عزم، ٹیکنالوجی، خفیہ معلومات، مہارت اور دیگر چیزوں کو دیکھتے ہوئے ہمارے ساتھ تعاون کرنا چاہتے ہیں۔‘‘ اسرائیلی وزیر اعظم نے ’طویل سفارتی کوششوں‘ کے نتیجے میں عمل میں آنے والے اس فیصلے کو ایک ایسا اہم قدم قرار دیا ہے، جس سے اسرائیل کی سلامتی میں مدد ملے گی۔
دوسری جانب مغربی دفاعی اتحاد نیٹو نے اسرائیل کے ساتھ اپنے روابط مستحکم کرتے ہوئے اس ملک سے ایک سرکاری نمائندے کو اپنے ہاں قبول کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ اس اسرائیلی نمائندے کو برسلز میں نیٹو کے ہیڈ کوارٹر میں ایک مستقل دفتر ملے گا۔ اس طرح اب اسرائیل بھی اٹھائیس رکنی مغربی دفاعی اتحاد کے چالیس پارٹنر ملکوں میں سے ایک بن گیا ہے۔ نیٹو کے چند ایک رکن ملک اب تک اسرائیل کے ساتھ قریبی تعاون سے یہ کہہ کر انکار کر رہے تھے کہ اس سے مسلمان ملکوں کے ساتھ تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں۔
ایک اسرائیلی ماہر نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ نیٹوکا یہ دعوت نامہ ترکی پر اس اتحاد کے دیگر رکن ممالک کی جانب سے ڈالے جانے والے دباؤ کا نتیجہ ہے۔ ان ممالک کی کوشش تھی کہ ترکی کو اس تجویز کے خلاف ویٹو کا اپنا حق استعمال کرنے سے روکا جائے۔ ترکی 1952ء سے اس اٹھائیس رکنی عسکری اتحاد میں شامل ہے۔
کہا جاتا ہے کہ 2014ء میں نیٹو میں توسیع کی پالیسی متعارف کرانے کے ساتھ ہی اسرائیل کو بھی باقاعدہ دعوت دی گئی تھی۔ تاہم اسرائیل نے ترکی کی جانب سے ویٹو کیے جانے کے ڈر سے اس سلسلے میں رابطہ نہیں کیا تھا۔ ترکی خطے میں اسرائیل کا حلیف ملک سمجھا جاتا ہے تاہم 2010ء میں غزہ جانے والے امدادی قافلے پر اسرائیلی کمانڈوز کی کارروائی میں دس ترک شہریوں کی ہلاکت کے بعد سے ان دونوں ممالک کے تعلقات کشیدہ ہو گئے تھے۔
اسرائیل اس سے قبل بھی ترکی اور امریکا سمیت نیٹو کے دیگر کئی رکن ممالک کے ساتھ عسکری مشقوں میں حصہ لیتا رہا ہے۔