1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اس برس کا بُکر پرائز آسٹریلوی ادیب رِچرڈ فلینیگن کے نام

شامل شمس15 اکتوبر 2014

اس سال کا ’مین بُکر پرائز‘ آسٹریلوی مصنف رِچرڈ فلینیگن کو دیا گیا ہے۔ یہ مؤقر انعام انہیں ان کے تاریخی موضوع پر لکھے گئے ناول ’دا نیرو روڈ ٹو دا ڈِیپ نارتھ‘ پر دیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1DVph
Richard Flanagan Buchpreis Man Booker Preis
تصویر: Reuters/Alastair Grant/Pool

فلینیگن سن دو ہزار چودہ کا یہ انعام جیتنے کے لیے پہلے ہی سے پسندیدہ قرار دیے جا رہے تھے۔ ان کی کتاب کو ادبی نقادوں نے ’’طاقت ور، انتہائی پڑھے جانے کے قابل، اور بار بار صفحات پلٹنے کے لائق‘‘ قرار دیا ہے۔

اس ناول کا موضوع دوسری جنگ عظیم کے دوران تھائی لینڈ اور برما (جو اب مینمار کہلاتا ہے) کی سرحد پر واقع جاپانی قیدیوں کا کیمپ اور اس سے متعلق واقعات ہیں۔ اس ناول کی کہانی ایک سرجن اور اس کے انکل کی بیوی کے معاشقے کے بارے میں بھی ہے، اور یہ ہیرو ازم، بربریت اور تکلیف برداشت کرنے کے عزم کا احاطہ بھی کرتی ہے۔

آسٹریلوی مصنف کو یہ ایوارڈ ڈچیس آف کرانوال نے ایک تقریب میں دیا۔

خیال رہے کہ فلینیگن کے والد جاپان کے قیدی تھے اور وہ ’’برما ڈیتھ ریلوے‘‘ کا شکار رہے تھے۔ ترپن سالہ فلینیگن کے والد کا انتقال اٹھانوے برس کی عمر میں اس روز ہوا جب مصنف نے یہ ناول مکمل کیا تھا۔

واضح رہے کہ ’’بُکر پرائز‘‘، جو کہ اس سے قبل صرف برطانوی اور دولت مشترکہ کے ممالک سے تعلق رکھنے والے مصنفین کے لیے مخصوص تھا، اب انگریزی میں لکھنے والے تمام لکھاریوں کے لیے کھول دیا گیا ہے۔ اس سے امکان پیدا ہو گیا ہے کہ امریکی مصنفوں کا اب بکر پرائز پر اجارہ قائم ہوسکتا ہے، اور دولت مشترکہ، بشمول بھارت، سری لنکا، بنگلہ دیش اور پاکستان سے تعلق رکھنے والے انگریزی زبان میں لکھنے والے مصنفین کو تمام دنیا سے انگریزی میں لکھنے والے ادیبوں سے مقابلہ کرنا پڑ جائے گا، اور یہ کہ ان کے لیے اب خصوصی بین الاقوامی ادبی انعام کی جگہ نہیں رہی۔

اس برس کے بکر پرائز کے لیے شارٹ لِسٹ ہونے والے چھ میں سے دو ادیب امریکا سے تعلق رکھتے تھے۔ کیرن جوئے فاؤلر کو ’’وی آر آل کمپلیٹلی بیسائڈ آورسیلوز‘‘ اور جوشوا فیرِس کو ’’ٹو رائز اگین ایٹ آ ڈیسنٹ آور‘‘ کے لیے نامزد کیا گیا تھا۔

انعام ملنے کے بعد فلینیگن کا کہنا تھا، ’’ناول لکھنے کے دوران اصل مشکل مجھے اس بات کی پیش آئی کہ ایک ایسی کہانی لکھوں جو کہ میرے والد کی سوانح نہ ہو تاہم ان کے بنیادی روحانی تجربے کی بھی عکاسی کرتی ہو۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید