1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’اداس نسلیں‘ کے خالق عبداللہ حسین اردو کو اداس چھوڑ گئے

عاطف بلوچﹴ4 جولائی 2015

اردو زبان کے معروف ترین اور عہد ساز ناول نگاروں میں سے ایک عبداللہ حسین چوارسی برس کی عمر میں انتقال کر گئے ہیں۔ وہ گزشتہ ایک برس سے خون کے سرطان سے نبرد آزما تھے اور چند روز پہلے ہسپتال سے گھر منتقل ہو گئے تھے۔

https://p.dw.com/p/1FseB
تصویر: DW/Rafat Saeed

ریڈیو پاکستان نے ہفتے کے دن تصدیق کر دی کہ اردو کے عظیم ناول نگاروں میں شمار ہونے والے عبداللہ حسین آج چار جولائی کو لاہور میں انتقال کر گئے۔ پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف سمیت مختلف مکتبہ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والی سرکردہ شخصیات نے عبداللہ حسین کی موت پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔

عبداللہ حسین کی تخلیقی صلاحیتوں کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے انہیں 2012ء میں انہیں ’کماِل فن‘ لٹریچر ایوارڈ سے نواز تھا۔ پاکستان میں یہ ایوارڈ ادب کی صنف میں سب سے زیادہ معتبر تصور کیا جاتا ہے جبکہ اس کے ساتھ پانچ لاکھ روپے کی نقد رقم بھی دی جاتی ہے۔

عبداللہ حسین کا ناول ’اداس نسلیں‘ اردو ادب میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس ناول کو نہ صرف اردو زبان کے قارئین کی طرف سے بہت زیادہ پذیرائی ملی بلکہ اس کے انگریزی سمیت کئی زبانوں میں تراجم بھی شائع ہو چکے ہیں جنہیں بین الاقوامی سطح پر بہت پسند کیا گیا تھا۔

’اداس نسلیں‘ کا خصوصی سلور جوبلی ایڈیشن ابھی دو سال قبل ہی شائع ہوا تھا۔ عبداللہ حسین نے ماضی میں اپنے متعدد انٹرویوز میں تذکرہ کیا تھا کہ انہوں نے اس ناول کے لیے بہت زیادہ تحقیق کی تھی۔ وہ اپنے اس ناول کو اردو ادب میں ایک اہم اضافہ قرار دیتے تھے۔ تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کی اپنی تخلیقات میں سے ان کا پسندیدہ ناول ’نادار لوگ‘ تھا۔ ماضی میں ڈی ڈبلیو سے ایک گفتگو کے دوران انہوں نے کہا تھا کہ ’اداس نسلیں‘ کو بہت زیادہ مقبولیت اور پذیرائی ملی ہے لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ ’نادار لوگ‘ ان کا فیورٹ ناول ہے۔

Abdullah Hussain
عبداللہ حسین کا ناول ’اداس نسلیں‘ اردو ادب میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہےتصویر: DW

’اداس نسلیں‘ اور ’نادار لوگ‘ کے علاوہ عبداللہ حسین کی دیگر قابل ذکر تخلیقات میں ’باگھ‘، ’نشیب‘، ’فریب‘، ’قید‘ اور ’رات‘ بھی شامل ہیں۔ وہ ناول نگاری کو ایک انتہائی مشکل، صبر آزما اور پیچیدہ عمل قرار دیتے تھے۔

2013ء میں پاکستان کی اکادمی ادبیات کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا، ’’ناول لکھنا آسان کام نہیں بلکہ یہ فن تعمیر کے مماثل ہے، آپ ایک اینٹ پر دوسری اینٹ رکھتے ہیں اور یوں ایک دیوار بنتی ہے۔‘‘

اپنے اسی خطاب میں عبداللہ حسین نے یہ بھی کہا تھا کہ آج کل کے دور میں لوگ ناول نہیں لکھ سکتے کیونکہ وہ جلد باز ہو چکے ہیں۔ ان کے بقول ناول نگاری میں تاخیر اور مشکلات کے باوجود مستقل مزاج اور مستعد رہنا پڑتا ہے۔ تب عبداللہ حسین نے کہا تھا کہ ایک اچھا ناول لکھنے کے لیے کم ازکم چار پانچ برس کا عرصہ درکار ہوتا ہے۔