1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اداریہ: ’دنیا تو ان کو بوجھ سمجھتی رہی مگر‘

کشور مصطفیٰ سربراہ شعبہ اُردو
7 مارچ 2018

دو ہزار اٹھارہ کے خواتین کے عالمی دن کو ڈوئچے ویلے کے شعبہ اُردو نے اُن تمام معصوم بچیوں، کم سن لڑکیوں اور خواتین کے ساتھ اظہار یکجہتی کا دن قرار دیا ہے جنہیں جنسی حوس کا شکار بنا کر قتل کر دیا گیا۔

https://p.dw.com/p/2tsUn
Werke der pakistanischen Künstlerin und Designerin Shehzil Malik
تصویر: Shehzil Malik

پاکستان میں کم سن بچیوں کے ساتھ  بہیمانہ جنسی زیادتیوں اور ان کے قتل کے غیر انسانی واقعات گزشتہ چند مہینوں کے دوران جس تسلسل کے ساتھ سامنے آئے، اُنہوں نے انسانیت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ پاکستان ہی نہیں، اس کے پڑوسی ممالک سے لے کر دنیا کے ہر خطے میں کم عمر بچیوں سے لے کر معمر خواتین تک کا ریپ اور قتل روز مرہ کا معمول بنتا جا رہا ہے۔ یہ سب کچھ ماضی میں بھی ہوتا رہا ہے تاہم میڈیا کے اس ڈیجیٹل دور میں یہ خبریں نہ صرف اخباروں کی سرخیاں بنتی ہیں بلکہ ان گھناؤنے واقعات کو سوشل میڈیا پر شیئر ہونے والی ویڈیوز میں دیکھا جانے لگا ہے۔ 

تاریخ اپنے بہت سے تاریک ابواب کی وجہ سے بھی زندہ رہتی ہے۔ دنیا میں جب بھی کوئی ایسا واقعہ رونما ہو تا ہے جو ماضی میں ہونے والے واقعات کے مسخ شدہ چہرے سے نقاب اُلٹتا دکھائی دے تو لوگ اس کے تاریخی دریچوں میں جھانکنا شروع کر دیتے ہیں۔

 

معاشرتی ترقی اور تہذیبی تنزلی

معاشرے ایک طرف تو تیزی سے جدیدیت اور ترقی کی طرف گامزن ہیں مگر دوسری جانب ایسے واقعات جو انسانی اقدار اور تہذیبوں کے زوال کے مظہر ہیں اتنی ہی کثرت سے رونما ہو رہے ہیں۔

عورتوں کے ساتھ امتیازی سلوک، انہیں دوسرے درجے کا انسان سمجھنا، ان کے بنیادی انسانی حقوق کی پامالی، ان کا جنسی استحصال، غرض یہ کہ عورت کو اُس کے اصل مقام سے محروم رکھنا انسانی تاریخ کی ایک ایسی حقیقت رہی ہے جسے مشرق و مغرب کہیں کا بھی معاشرہ جھٹلا نہیں سکتا۔ 

’عورت‘ جو انسانیت کے وجود کا منبہ ہے، اُسے کم و بیش دنیا کے ہر معاشرے میں ہی ان تمام زیادیتوں کا سامنا کرنا پڑتا رہا ہے۔ لڑکی کی پیدائش سے ہی اُس کے ساتھ امتیازی سلوک اور استحصال کا سلسلہ جو عہد جاہلیہ سے شروع ہوا وہ بدقسمتی سے اب تک ختم نہیں ہوا۔

Deutsche Welle Urdu Kishwar Mustafa
کشور مصطفیٰ/ سربراہ شعبہ اُردوتصویر: DW/P. Henriksen

حقیقت کچھ اور

جن معاشروں میں خواتین کے مقام اور اُن کے حقوق کو جزوی طور پر تسلیم کرنا شروع کیا گیا، اُن کے تاریخی حقائق بتاتے ہیں کہ اس کی بنیادی وجہ عورت کو معاشی ترقی کے لیے استعمال کرنا تھا۔ مغرب میں حقوق نسواں کی تحریکوں اور معاشرے میں خواتین کو مردوں کے برابر مقام کے حصول کی جدو جہد اس لیے رنگ نہیں لائی کہ معاشروں نے حقیقی معنوں میں خواتین کو وہ مقام دینے کا فیصلہ کر لیا جس کی وہ حقدار ہیں بلکہ صنعتی انقلاب کے بعد سے عورتوں کے سماجی کردار اور ان کے بنیادی حقوق پر توجہ مرکوز کی جانے لگی۔

جن اقوام میں یہ شعور بیدار ہو گیا کہ عورت کی شمولیت کے بغیر صرف گھر بار ہی نہیں بلکہ معاشرہ بھی پروان نہیں چڑھ سکتا، اُن قوموں نے خواتین کو اُن کے بنیادی حقوق دینے شروع کیے اور ان کی صلاحیتوں کو ہر شعبہ زندگی میں بروئے کار لایا جانے لگا۔ صنعتی انقلاب آیا تو خواتین نے مردوں کے شانہ بشانہ فیکٹریوں تک میں کام کرنا شروع کر دیا۔ اٹھارویں صدی کے آغاز میں ہمیں خواتین مردوں کی طرح محنت مزدوری کرتی دکھائی دیتی ہیں تاہم انہیں نہ تو مردوں کے برابر اُجرت ملتی تھی نہ ہی مزدورں کی حیثیت سے دیگر سہولیات میسر تھیں۔

1908ء میں امریکی شہر نیو یارک میں گارمنٹس فیکٹری میں کام کرنے والی خواتین نے اپنے حقوق کے لیے آواز اُٹھاتے ہوئے سڑکوں پر نکل کر اپنے ساتھ ہونے والے غیر مساوی سلوک پر احتجاج کیا۔ اس کے نتائج یہ نکلے کے اُس وقت امریکا کی جو سوشلسٹ پارٹی تھی، اُس نے اسے خواتین کے حقوق کے حصول کے لیے شروع کی جانے والی پہلی سیاسی مہم قرار دیتے ہوئے اسے 'خواتین کا عالمی دن‘ قرار دیا۔ 1909ء سے ہر سال اس دن کو منانے کا سلسلہ شروع ہوا۔

امریکی سوشلسٹوں سے متاثر ہوکر جرمنی کی معروف سوشلسٹ لیڈر لوئیزے زیٹس نے خواتین کے عالمی دن کو منانے کا رواج یورپ میں بھی عام کرنے کا بیڑا اُٹھایا۔ یورپ اور امریکا کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں اس دن کو مناتے ہوئے خواتین کے حقوق کے تحفظ اور ان کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک کے خلاف سراپا احتجاج بننے والی عورتوں نے اپنے اپنے ممالک میں اسے منانا شروع کر دیا۔

تب سے اب تک سیاسی سطح پر خواتین کے حقوق کے تحفظ اور ان کے خلاف ہونے والی ہر طرح کی زیادتیوں کے خلاف بہت سی مہمات چلائی گئیں، کچھ کے مثبت اثرات سامنے بھی آئے۔ بہت سے معاشروں میں عورتوں کی صورتحال واضح طور پر بہتر بھی ہوئی لیکن یہ سب کچھ کافی نہیں لگتا۔ مغربی معاشروں میں اکیسویں صدی میں بھی خواتین کو اپنے جیسی قابلیت کے حامل مردوں کے برابر تنخواہیں نہیں ملتیں۔ روزگار کی منڈی میں بھی انہیں برابر مواقع میسر نہیں۔ اس کے علاوہ خواتین گھرداری اور نوکری دونوں ذمہ داریاں سنبھالتی ہیں۔ جو عورتیں ملازمتیں نہیں کرتیں، اُن کی گھر اور بچوں کی دیکھ بھال میں صرف ہونے والی محنت کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔ اہم بات یہ ضرور ہے کہ مغربی معاشروں میں ان مسائل پر غور و خوض کیا جاتا ہے اور انہیں حل کرنے کے لیے کم از کم سیاسی بحث و مباحثے ہوتے ہیں۔

 

آگہی و ادراک کا فقدان

مغرب کے مقابلے میں زیادہ تر مشرقی معاشروں میں خواتین کے جائز مقام اور ان کے حقوق کے بارے میں مردوں میں شعور کی کمی پائی جاتی ہے۔ المیہ یہ بھی ہے کہ بہت سے معاشروں میں خود خواتین میں بھی اپنے جائز مقام اور بنیادی حقوق کے بارے میں مناسب آگہی نہیں پائی جاتی۔ ایسے  معاشرے زیادہ تر مردوں کی اجارہ داری کا شکار ہیں۔

قانون بنانے اور نافذ کرنے والے بھی وہی اور عورت کو اپنی جاگیر سمجھ کر اُن پر حکمرانی چلانے والے بھی یہی مرد ہیں۔ ان کے لیے عورت ایک شے یا مال و اسباب کی سی حیثیت رکھتی ہے۔ بھارت اور پاکستان کے انتہائی قدامت پسند اور پسماندہ علاقوں میں آج بھی بیٹی کی پیدائش پر سوگ اور بیٹے کی پیدائش پر جشن منایا جاتا ہے۔

جب بیٹی شروع سے ہی بوجھ سمجھی جائے گی تو اس کی جان و عزت کے لُٹنے پر خاموشی ہی تو اختیار کی جائے گی۔ چند ماہ کی بچی سے لے کر کم سن لڑکیوں اور معمر خواتین تک کو اپنی جنسی حوس کا نشانہ بنانے والے درندہ صفت مرد دنادناتے پھریں گے۔ بیٹی اگر اپنی پسند سے شادی کرنا چاہے تو اُسے غیرت کے نام پر قتل کر دیا جائے گا۔ ستم تو یہ ہے کہ بہیمانہ طریقے سے چھوٹی چھوٹی بچیوں کا ریپ کر کے انہیں ٹکڑے ٹکڑے کر دینے والے مجرموں کو اکثر خود بچی کے ماں باپ یا گھر والے معاف کر دیتے ہیں۔

 

زینب و اسما کی آوازیں گونجتی رہیں گی

کم سن بچیوں، لڑکیوں اور خواتین کا ریپ اور قتل، لڑکیوں کو غیرت کے نام پر مار ڈالنے کی فرسودہ روایت، عورتوں کو گھریلو تشدد کا نشانہ بنانا، گھروں، دفتروں اور عوامی مقامات پر انہیں حراساں کرنا۔ خواتین کو دوسرے درجے کا شہری سمجھنا یا انہیں جبری طور پر اپنے ماتحت رکھنا، یہ سب کچھ آج کے جدید دور میں بھی ہو رہا ہے۔ اس کا سد باب کیسے ممکن ہے؟

سب سے پہلے میں دنیا کی تمام خواتین سے کہنا چاہوں گی کہ خود کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیجیے۔ اپنی ذات کو پہچانیے، اس کی قدر کیجیے، اپنی صلاحیتیوں کو بروئے کار لائیے، معاشرے کی تعمیر کا کام آپ کی ذمہ داری ہے اسے انتھک کوششوں کے ساتھ پورا کیجیے۔ اپنی تحریر و تقریر کے ذریعے معاشرتی مساوات، رواداری، انسانیت کی تعظیم اور عورت کی تکریم کے لیے ہر ممکن کوششیں جاری رکھیے۔ سات سالہ زینب اور چار سالہ اسما دنیا سے بہت کم سنی میں رخصت ہوتے ہوئے تمام انسانوں کے لیے جو پیغام چھوڑ گئی ہیں، اُسے آگے سے آگے پھلائیے۔

لڑکیوں کے ساتھ جنسی، روحانی، جسمانی ہر طرح کی زیادتیوں کو اب ختم ہونا چاہیے۔ ’’بس اب بہت ہو چکا‘‘ ۔ اب کسی زینب یا اسما کی پامال لاش نہیں ملنی چاہیے۔ یہ جدو جہد جاری رکھنا ہوگی۔

کشور مصطفیٰ/ سربراہ شعبہ اُردو