1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

احتیاطی تدابیر اپنائیں، ہیپاٹائٹس سے خود کو بچائیں

عنبرین فاطمہ، کراچی27 جولائی 2015

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے صحت کے مطابق ہیپاٹائٹس سے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں پاکستان دوسرے نمبر پر ہے، جہاں صرف ہیپاٹائٹس کی دو اقسام، بی اور سی کے ہی ڈیڑھ کروڑ مریض موجود ہیں۔

https://p.dw.com/p/1G5S5
Symbolbild - menschliche Leber
تصویر: Fotolia/ag visuel

پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہیپاٹائٹس سے آگاہی اور اس سے بچاؤ پر زور دینے کے لیے منگل 28 جولائی کو ہیپاٹائٹس کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق پاکستان میں ’خاموش طوفان‘ قرار دیے جانے والے اس مرض کی صرف دو اقسام میں ہی ڈیڑھ کروڑ افراد مبتلا ہیں۔ گزشتہ برس عالمی ادارہ صحت کے ایگزیکٹو بورڈ کے اجلاس میں بتایا گیا کہ پاکستان میں ہیپاٹائٹس وائرس ہولناک صورت اختیارکرتا جا رہا ہے اور ملک میں ہیپاٹائٹس سے بچاؤکے حفاظتی ٹیکے لگوانے کا رحجان کم ہے، جو ایک سنگین مسئلہ بن رہا ہے۔

اس وقت پاکستان میں سوزشِ جگر کے اس مرض میں کُل کتنے افراد مبتلا ہیں، اس بارے میں کوئی حتمی اعداد و شمار تو موجود نہیں ہیں تاہم پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن کی گزشتہ برس جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ پاکستان میں ہر بارہواں شخص ہیپاٹائٹس میں مبتلا ہے۔

پاکستان میں حکومت کی جانب سے وفاقی اور صوبائی سطح پر ہیپاٹائٹس کی روک تھام اور علاج کے لیے خصوصی پروگرام جاری ہیں، جن کے تحت صرف صوبہ سندھ میں ہی 64 مراکز قائم ہیں، اس کے باوجود صوبے میں ہیپاٹائٹس میں مبتلا افراد کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ ہیپاٹائٹس کنٹرول پروگرام کے صوبائی پروگرام منیجر ڈاکٹر عبدالخالق شیخ نے صوبہ سندھ میں ہیپاٹائٹس کی صورتحال پر گفتگو کرتے ہوئے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’کراچی سمیت سندھ میں ہیپاٹائٹس وائرس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد31 لاکھ تک پہنچ گئی ہے، ان میں ہیپاٹائٹس بی وائرس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد 11 جبکہ سی وائرس کے مریضوں کی تعداد20 لاکھ سے زائد ہے۔‘‘

Hepatitis Ausbruch in Pakistan
تصویر: DW/D. Baber

واضح رہے کہ صوبائی پروگرام منیجز کی جانب سے دیے جانے والے اعداد و شمار سن 2008ء میں کیے جانے والے ایک سروے سے حاصل کیے گئے ہیں جبکہ تازہ اعداد و شمار سرکاری سطح پر موجود ہی نہیں ہیں۔

ڈاکٹر عبدالخالق شیخ کے مطابق اب تک صوبائی پروگرام کے تحت چلائے جانے والے ان مراکز میں بڑی تعداد میں لوگ علاج کے لیے رابطہ کرتے ہیں، ‘‘دو ہزار آٹھ میں سندھ میں ہیپاٹائٹس پریوینشن اینڈ کنٹرول پروگرام کا آغاز کیا گیا۔ اس پروگرام کے تحت اب تک ہیپاٹائٹس بی، سی اور ڈی کے ایک لاکھ اکسٹھ ہزار تین سو مریضوں کا علاج ہو جا چکا ہے۔ اس کے علاوہ سندھ بھر کے ٹریٹمنٹ سینٹرز میں پچیس ہزار مریض زیرعلاج ہیں۔ ‘‘

ڈاکٹر عبدالخالق شیخ بتاتے ہیں کہ اس وقت سندھ کے چار اضلاع گھوٹکی، خیرپور، سانگھڑ اور دادو کو ہیپاٹائٹس کے حوالے سے ہائی رسک اضلاع قرار دیاگیا ہے۔ ان چاروں اضلاع میں ہیپاٹائٹس وائرس کے سب سے زیادہ متاثرہ مریض موجود ہیں اور اس کی سب سے بڑی وجہ گندے پانی کا استعمال بھی ہے، ’’غیر محفوظ خون کی منتقلی بھی اس کی بڑی وجوہات میں شامل ہے۔ وہاں موجود بلڈ بینک خون کی اسکرینینگ کیے بغیر خون کی منتقلی کا کام کر رہے تھے۔ اس کے علاوہ ایک اور وجہ استعمال شدہ انجیکشن کا دوبارہ استعمال ہے۔ عطائی ڈاکٹروں سے دانت کی تکالیف لے کر جاتے ہیں تو وہ ان جراحی آلات کا ستعمال کرتے ہیں، جو مناسب طریقے سے جراثیم سے پاک نہیں کیے جاتے۔ یہ آلات بھی ہیپاٹائٹس کے پھیلاؤ کا سبب بن رہے ہیں۔ اس کے علاوہ غیر محفوظ جنسی تعلقات اور ناک یا کان چھدوانے کے لیے ایک ہی آلے کا استعمال بھی اس مرض کے پھیلاؤ کی وجوہات میں شامل ہیں۔‘‘

صوبائی سطح پر اس مرض کے خاتمے اور اس سے آگاہی کے لیے کیا کام کیا جا رہا ہے ، اس حوالے سے ڈاکٹر عبدالخالق شیخ کا کہنا تھا، ‘‘ملک خصوصاً سندھ کو ہیپاٹائٹس سے پاک کرنے کے لیے ہم نے ہفتہ وار مہم تو شروع کر رکھی ہے، اس ہیپاٹائٹس سے بچاؤ کے عالمی دن کے حوالے سے۔ اس کے علاوہ سال بھر ہماری مختلف مہمات چلتی رہتی ہیں جو لوگوں کو علاج اور اس مرض سے بچاو کے لیے آگاہی دیتی رہتی ہیں۔ صرف یہ ہی نہیں ہم غیر اسکرین شدہ خون کی منتقلی کرنے والے ان بلڈ بینک پر بلڈ بینک اتھارٹی کے اشتراک سے کافی سختی کر رہے ہیں تاکہ اس کی روک تھام کی جا سکے۔ اس کے علاوہ انجیکشن لگوانے کے حوالے سے لوگوں کو آگاہ کرتے ہیں کہ اگر انجیکشن لگوانا اتنا ضروری ہے تو نئی سرنج کا استعمال کریں۔ عطائی ڈاکٹروں اور ناک کان چھیدنے والوں کے پاس جانے سے پرہیز کریں۔‘‘

طبی ماہرین کے مطابق پاکستان میں بڑھتے ہوئے ہیپاٹائٹس کے مرض سے بچنے کے لیے احتیاط ہی بہترین طریقہ ہے، جس سے آپ خود کو اس موذی مرض سے بچا سکتے ہیں۔