1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اتحاد کی تجويز ’ذہنی مريض کا خیالی پلاؤ‘، شمالی کوريا

عاصم سليم12 اپریل 2014

گزشتہ ماہ جنوبی کوريائی صدر نے شمالی کوريا کو تجويز دی تھی کہ معاشی شعبے ميں تعاون سے ممکنہ اتحاد کی بنياد رکھی جا سکتی ہے۔ پيونگ يانگ نے اِس تجويز پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اِسے کسی ’ذہنی مريض کا خیالی پلاؤ‘ قرار ديا ہے۔

https://p.dw.com/p/1BguO
تصویر: Reuters

شمالی کوريا کے نيشنل ڈيفنس کميشن کی جانب سے جنوبی کوريا کی خاتون صدر پاک گُن شے کی اِس تجويز کو مسترد کرتے ہوئے اِسے ’منافقت اور دھوکہ دہی‘ سے تعبير کيا گيا ہے۔ اِس حوالے سے کميشن کے ايک ترجمان کا بيان ہفتے کے روز شمالی کوريا کے سرکاری ميڈيا پر نشر کيا گيا، جس ميں ترجمان نے کہا کہ جنوبی کوريائی صدر کی طرف سے اتحاد کا تذکرہ اُن کے منفی خيالات کی عکاسی کرتا ہے۔

شمالی کوريا کی صدر پاک گُن شے نے گزشتہ ماہ سابقہ مشرقی جرمنی کے ايک شہر ڈريسڈن ميں تقرير کرتے ہوئے معاشی سطح پر تبادلوں اور انسانی ہمدردی کے تحت امداد ميں اضافے کے ذريعے پيونگ يانگ کو جزيرہ نما کوريا کے ساتھ اتحاد کی پيشکش کی تھی۔ اِس موقع پر پاک نے مشرقی اور مغربی جرمنی کے اتحاد کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ يہ پُر امن اتحاد کی ايک مثال ہے۔

جنوبی کوريائی صدر پاک گُن شے اور جرمن چانسلر انگيلا ميرکل
جنوبی کوريائی صدر پاک گُن شے اور جرمن چانسلر انگيلا ميرکلتصویر: picture-alliance/dpa

اِس مخصوص نکتے پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے پيونگ يانگ کی نيشنل ڈيفنس کميشن کے ترجمان کا کہنا تھا کہ جرمنی کا اتحاد ملک کے مغربی حصے کی جانب سے مشرقی حصے کو جذب کر کے عمل ميں آيا۔ ترجمان نے پاک پر تنقيد کرتے ہوئے الزام عائد کيا کہ وہ مغربی ممالک سے ايک ايسے اتحاد کی بھيک مانگ رہی ہيں، جس میں جنوبی کوريا شمالی کوريا کو اپنے اندر جذب کر لے گا۔

واضح رہے کہ جنوبی و شمالی کوريا کے ممکنہ اتحاد کے حوالے سے پاک کے بيان پر پيونگ يانگ کا يہ پہلا سرکاری رد عمل ہے۔ بارہ اپريل کو جاری کردہ اس بيان ميں شمالی کوريا کے ترجمان نے سيول کو تنبيہ کی کہ وہ طے شدہ سمجھوتوں پر عمل در آمد جاری رکھے، بالخصوص 2000ء ميں دستخط کردہ اُس معاہدے پر، جس کے تحت دونوں روايتی حريفوں کے مابين عسکری محاذ آرائی کو کم کرنے پر توجہ مرکوز کی گئی تھی۔

جنوبی و شمالی کوريا کے مابين کشيدگی کی تازہ لہر جاری

جنوبی کوريا اور امريکا کی رواں برس فروری سے شروع ہونے والی مشترکہ جنگی مشقوں کی وجہ سے اِن دنوں سيول اور پيونگ يانگ کے مابين کشيدگی کی لہر جاری ہے۔ پيونگ يانگ نے مشقوں کو ’شمالی کوريا پر حملے اور قبضے کی تياری‘ قرار ديتے ہوئے راکٹوں اور ميزائلوں کے کئی تجربات کيے ہیں۔ اکتيس مارچ کو شمالی کوريا کی جانب سے کی جانے والی گولہ باری کے بعد سرحد پر فريقين کی افواج کے درميان فائرنگ کا تبادلہ بھی ہوا۔ معاملات اِس کے بعد بھی بہتر نہ ہوئے اور پيونگ يانگ نے ’نئے‘ ايٹمی تجربے کی دھمکی تک دے ڈالی۔ دريں اثناء جمعہ گيارہ فروری سے جنوبی کوريا اور امريکا نے اپنی اب تک کی سب سے بڑی جنگی فضائی مشقوں کا آغاز بھی کر ديا ہے۔

يونيورسٹی آف نارتھ کورين اسٹڈيز کے پروفيسر يانگ مُو جِن کا کہنا ہے کہ اس زبانی بیان بازی کے باوجود امکان ہے کہ پيونگ يانگ حکومت اپنے رويے ميں نرمی لائے گی اور بات چیت کی راہ اختیار کرے گی۔