اب پاکستان میں کوئی ایغور عسکریت پسند نہیں رہا، ممنون حسین
2 ستمبر 2015صدر ممنون حسین نے بدھ دو ستمبر کو بیجنگ کے ’گریٹ ہال آف دی پیپل‘ میں اپنے چینی ہم منصب شی جن پنگ کے ساتھ ملاقات کی اور کہا کہ ’ضربِ عضب‘ کے نام سے دہشت گردوں کے خلاف جاری فوجی آپریشن ’ملک سے دہشت گردی کا صفایا کرنے میں کامیاب رہا ہے‘۔
ممنون حسین نے کہا:’’اس آپریشن سے ہمارے ملک سے ETIM کے ارکان کو بھی ختم کرنے میں مدد ملی ہے اور میرا خیال ہے کہ ہمارے ملک میں ETIM سے تعلق رکھنے والے تقریباً تمام ارکان کا صفایا کیا جا چکا ہے۔ اگر کچھ عناصر بچ بھی گئے ہیں تو میرا خیال ہے کہ وہ بہت تھوڑے سے ہیں۔‘‘
ممنون حسین نے کہا کہ چین اور پاکستان ایک دوسرے کے گہرے دوست ہیں اور ہمیشہ بھرپور جوش و جذبے کے ساتھ ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔ پاکستانی سربراہِ مملکت اُس فوجی پریڈ میں شرکت کے لیے چین میں ہیں، جس کے ذریعے چین براعظم ایشیا میں دوسری عالمی جنگ کے اختتام کے ستّر برس ہونے کی یاد منا رہا ہے اور جس میں روسی صدر ولادیمیر پوٹن سمیت کوئی تیس ملکوں کے رہنما شریک ہو رہے ہیں۔ اس پریڈ میں پاکستان کے چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی جنرل راشد محمود بھی ایک مبصر گروپ کے طور پر شرکت کرتے ہوئے ایک وفد کی قیادت کریں گے۔
چین اپنے مغربی علاقے سنکیانگ میں جاری پُر تشدد ہنگاموں کے لیے ETIM جیسے مسلمان علیحدگی پسند گروپوں کو قصور وار گردانتا ہے، جو بیجنگ حکومت کے خیال میں اس علاقے میں مشرقی ترکستان کے نام سے ایک آزاد ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں اور جنہوں نے اس مقصد کے لیے افغانستان اور پاکستان جیسے ملکوں میں اپنے اڈے قائم کر رکھے ہیں۔
تاہم نیوز ایجنسی اے ایف پی کی ایک رپورٹ کے مطابق بہت سے غیر ملکی ماہرین اس امر کو شک و شبے کی نگاہ سے دیکھتے ہیں کہ آیا ETIM جیسی کوئی واحد تنظیم اُس انداز میں وجود رکھتی ہے، جیسے کہ چینی حکومت دعوے کرتی ہے۔
مغربی چینی علاقے سنکیانگ میں گزشتہ چند برسوں کے دوران رونما ہونے والے پُر تشدد واقعات میں، جن کے لیے بیجنگ حکومت عسکریت پسندوں کو قصور وار قرار دیتی ہے، سینکڑوں افراد مارے جا چکے ہیں۔ انسانی حقوق کے علمبردار گروپوں کے مطابق اس خطےّ میں، جسے ایغور اپنا وطن قرار دیتے ہیں، بد امنی کی اصل وجہ یہ ہے کہ چین ایغور قوم کے اسلامی عقیدے اور اُن کی ثقافت پر قدغنیں لگا رہا ہے۔
چین کا موقف یہ ہے کہ ’ای ٹی آئی ایم‘ نامی تنظیم ترکی جانے والے ایغوروں کو بھرتی کرتی ہے اور اُنہیں عراق اور شام میں انتہا پسنوں سے تربیت دلواتی ہے، اس ارادے سے کہ وہ واپس سنکیانگ پہنچ کر ’جہاد‘ میں حصہ لے سکیں۔