جرمن فوڈ بینک کا متنازعہ فیصلہ: تین سوال، تین جواب
23 فروری 20181. جرمن شہر ایسن میں قائم فوڈ بینک ’ایسنر ٹافل‘ پر تنقید کی وجہ کیا ہے؟
’’ایسنر ٹافل‘‘ نامی فوڈ بینک نے جنوری کے وسط میں نئی ارکان سازی سے متعلق اپنی پالیسی تبدیل کر دی تھی۔ نئی پالیسی کے تحت صرف انہی لوگوں کو باقاعدگی سے خوراک فراہم کرنے کے لیے ارکان کی فہرست میں شامل کیا جائے گا جو جرمن شہریت رکھتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ حالیہ برسوں کے دوران جرمنی پہنچنے والے مہاجرین اور تارکین وطن ابھی تک معاشی طور پر خودمختار نہیں ہوئے لہٰذا انہیں ہی اس طرح کی مدد کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ ایسے لوگوں کو اس سہولت سے محروم کرنے پر مقامی سیاستدانوں، تارکین وطن کے گروپوں اور دیگر فوڈ بینکوں کی طرف سے بھی تنقید کی جا رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ دراصل انتہائی دائیں بازو کے گروپوں کے ہاتھوں میں کھیلنے کے مترادف ہے۔ مہاجرین اور تارکین وطن کے مخالف ایسے بعض گروپوں کی طرف سے اس فیصلے کو سراہا بھی گیا ہے۔
2. اس فوڈ بینک کی طرف سے اپنی پالیسی میں تبدیلی کی وجہ کیا بنی؟
ایسنر ٹافل کی ویب سائٹ پر تو یہ بتایا گیا ہے کہ چونکہ اس سہولت سے فائدہ اٹھانے والے غیر ملکیوں کی تعداد 75 فیصد تک ہو گئی ہے اور جس کی وجہ حالیہ برسوں میں جرمنی آنے والے مہاجرین کی بڑی تعداد ہے۔ اس لیے اس ادارے نے بہتر انتظام کو یقینی بنانے کے لیے صرف جرمن شہریوں کو ہی آئندہ رکنیت دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ تاہم اس فوڈ بینک کے چیئرمین یورگ سارتر نے جرمن میڈیا کو بتایا کہ کھانا حاصل کرنے کے لیے لوگوں کی قطاروں کے درمیان چونکہ غیر ملکی زبان بولنے والوں کی تعداد گزشتہ دو برسوں کے دوران کافی بڑھ گئی ہے اور یہ لوگ خواتین یا بوڑھے افراد کی زیادہ عزت بھی نہیں کرتے اس لیے خواتین اور بوڑھے لوگوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
3. ان فوڈ بینکوں کو فنڈنگ کہاں سے ملتی ہے اور جرمنی میں اس طرح کے اندازاﹰ کتنے فوڈ بینک موجود ہیں؟
یہ فوڈ بینک لوگوں سے ڈونیشن بھی قبول کرتے ہیں مگر زیادہ تر یہ مختلف سپر مارکیٹوں اور فوڈ چین یا ریستورانوں سے ایسی خوراک جمع کرتے ہیں جسے دوسری صورت میں ضائع کیا جانا ہوتا ہے اور اسے تیار کر کے ضرورت مندوں تک پہنچاتے ہیں۔ جرمنی میں ایسے 930 سے زائد ادارے قائم ہیں جن کے تحت دو ہزار سے زائد ایسے پوائنٹس موجود ہیں جہاں سے لوگوں کو مفت خوراک فراہم کی جاتی ہے۔ ایسے فوڈ بینکس کی جرمن ایسوسی ایشن کے مطابق ملک بھر میں اس سہولت سے فائدہ اٹھانے والوں میں سے 60 فیصد کے قریب غیر جرمن ہیں۔