1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آچے کی اسلامی حکومت کی نئی قانون سازی کی پذیرائی

29 ستمبر 2016

انڈونیشیا کا صوبہ آچے اپنے سخت اسلامی قوانین کی وجہ سے عالمی سطح پر شہرت رکھتا ہے اور شاذ و نادر ہی اس کی تعریف سننے کو ملتی ہے۔ تاہم اب انسانی حقوق کچھ تنظیموں نے آچے میں متعارف کرائے گئے ایک نئے قانون کی پذیرائی کی ہے۔

https://p.dw.com/p/2Qjj9
Indonesien Frauen machen ein Selfie mit dem Handy
تصویر: Getty Images/AFP/C. Mahyuddin

آچے میں متعارف کرائے جانے والے اس قانون کے مطابق سرکاری محکموں میں کام کرنے والی خواتین کو زچگی کے بعد چھ ماہ کی چھٹی دی جائے گی جبکہ ملک کے دیگر حصوں کے مقابلے میں اس دوران انہیں دگنا الاؤنس بھی دیا جائے گا۔ اسے اس حوالے سے انڈونشیا کی سب سے زیادہ  فیاضانہ پالیسی قرار دیا جا رہا ہے۔ مقامی حکومت کے ترجمان فرنز دیلیان نے کہا کہ آچے کے گورنر نے گزشتہ مہینے ہی اس پالیسی پر عمل پیرا ہونے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ ان کے بقول آچے کے نوزائیدہ بچے خوراک کی کمی کی وجہ سے مختلف بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں اور نئے قانون کے بعد خواتین اپنے بچوں کو زیادہ عرصے تک دودھ پلا سکیں گی۔

Indonesien Moschee Lautsprecher
انڈونیشیا کے مغرب میں واقع آچے کو ایک انتہائی مذہبی صوبہ قرار دیا جاتا ہےتصویر: Getty Images/AFP/C. Mahyuddin

آچے کی اس پالیسی کو اس لیے بھی بہت زیادہ اہمیت دی جا رہی ہے کیونکہ اس صوبے کی انتظامیہ کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی وجہ سے بہت زیادہ تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس قانون کے متعارف کرائے جانے کے بعد سے جکارتہ کی مرکزی حکومت اور آچے کی صوبائی حکومت کے مابین ایک رسہ کشی سی شروع ہو گئی ہے۔ جکارتہ حکام اسے ملکی قوانین کی خلاف ورزی قرار دے رہے ہیں کیونکہ مرکزی حکومت زچگی کے بعد خواتین کو صرف تین ماہ کی چھٹی دیتی ہے۔ انڈونیشیا میں ہیومن رائٹس واچ رائٹس کے محقق آندریاز ہارسونو نے اس اقدام کا خیر مقدم کیا ہے۔ ان کے بقول آچے میں ابھی بھی بہت سے امتیازی قوانین ہیں، جن پر نظر ثانی کی ضرورت ہے:’’یہ لوگ آہستہ آہستہ ترقی پسند ہوتے جا رہے ہیں۔‘‘

انڈونیشیا کے مغرب میں واقع آچے کو ایک انتہائی مذہبی صوبہ قرار دیا جاتا ہے۔ اس کی زیادہ تر آبادی مسلمان ہے اور یہاں پر جوئے، شراب نوشی، جسم فروشی اور  ہم جنس پرستی کی ممانعت ہے اور خلاف ورزی کرنے والے کو سرعام شرعی پولیس کی جانب سے کوڑے مارے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ خواتین کے لیے حجاب پہننا بھی لازمی ہے۔ زچگی کے بعد رخصت سے متعلق نئے قانون سے آچے کے سرکاری  محکموں میں کام کرنے والی  92 ہزار خواتین فائدہ اٹھا سکیں گی۔ سرکاری ہسپتال کی ایک نرس یینی لنڈا اس نئی قانون سازی سے مستفید ہونے والی پہلی خاتون ہیں:’’میں بہت خوش ہوں، اب میں اپنے بچوں کے ساتھ زیادہ وقت گزار سکتی ہوں۔‘‘