1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’آٹھ ماہ کی بچی کی چیخوں سے سب آبدیدہ‘

30 جنوری 2018

بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں ايک آٹھ  ماہ کی بچی کے خلاف جنسی حملے نے ایک مرتبہ پھر یہ سوال اٹھا دیا ہے کہ اس جنوبی ایشائی ملک میں خواتین اور بچیاں کیوں محفوظ نہیں؟

https://p.dw.com/p/2rm7K
Indien Protest gegen Vergewaltigungsfälle in Haryana
تصویر: Getty Images/AFP/S. Husssain

بھارتی دارالحکومت میں ایک ستائیس سالہ شخص کو اپنی آٹھ ماہ کی ايک رشتہ دار بچی پر جنسی حملہ کرنے کے جرم میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔ نئی دہلی کے ایک اعلیٰ پولیس اہلکار نے بتايا، ’’ملزم نے اپنا جرم قبول کر لیا۔ اس کا کہنا تھا کہ بچی پر حملے کے وقت وہ نشے کی حالت میں تھا۔‘‘

دہلی کمیشن برائے خواتین کی سربراہ سواتی جے ہند مالیوال نے ڈی ڈبلیو اردو کی سربراہ کشور مصطفیٰ کے ساتھ اس کیس سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’اس بچی کو اس وقت مصنوعی تنفس کے ذریعے زندہ رکھا گيا ہے۔ اس کے اندرونی اعضاء بری طرح متاثر ہوئے ہیں اور یہ زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہی ہے۔‘‘ مالیوال کے بقول وہ آج بھی انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں اس بچی کو دیکھ کر آئی ہیں جہاں اس معصوم بچی کی چیخیں کئی لوگوں کو آبدیدہ کر رہی ہیں۔

’آٹھ ماہ کی بچی کی چیخوں سے سب آبدیدہ‘

پولیس کے مطابق اس بچی کے والدین مزدوری کرنے گھر سے باہر نکلے ہوئے تھے اور بچی کو اپنی خالہ کے گھر چھوڑ گئے تھے، جہاں اس بچی کی خالہ کے بیٹے نے ان کی بیٹی کا ریپ کر دیا۔ جب بچی کی ماں کام سے واپس گھر لوٹی، تو اس نے اپنی ننھی بچی کو خون سے لت پت دیکھا۔

مالیوال نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بے شک پولیس نے اس بچی کے ساتھ زیادتی کرنے والے شخص کو گرفتار کر لیا ہے لیکن اس معصوم جان کے والدین اور وہ بھی یہی مطالبہ کر رہی ہیں کہ ملزم کو سخت سے سخت سزا دی جائے۔ مالیوال کی رائے میں گزشتہ کچھ عرصے میں بہت سے ایسے کیسز سامنے آئے ہیں، جن ميں جنسی زيادتی کرنے والے شخص کو گرفتار کیے جانے کے چھ ماہ کے اندر اندر سزا نہیں سنائی گئی۔ مالیوال نے کہا، ’’دہلی پولیس کے مطابق 2012ء سے لے کر 2014ء کے درمیان اکتيس ہزار چار سو چھیالس عورتوں پر جنسی حملے ہوئے۔ تاہم ان کیسز میں ڈیڑھ سو سے بھی کم مجرموں کو عدالتوں کی جانب سے سزا سنائی گئی۔ تو جب لوگوں کو ڈر ہی نہیں ہوگا، سزائیں ہی نہیں ملیں گی، تو جرم میں کمی کیسے آئے گی۔‘‘

جنسی زیادتی کی شکار  بچی کو اسقاط حمل کی اجازت مل گئی

نئی دہلی، ’خواتین کے مصائب کم نہ ہوئے‘

دس سالہ بھارتی لڑکی کا تین مردوں کے ہاتھوں تین ماہ تک ریپ

مالیوال نے حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ گزشتہ دس سال سے دہلی کی پولیس مزید اہلکاروں کی بھرتیوں کا مطالبہ کر رہی ہے لیکن یہ مطالبہ پورا نہیں ہوسکا اور نہ ہی پولیس کے نظام کو ڈیجیٹل کرنے کا مطالبہ پورا کیا گیا۔ مالیوال نے انٹرویو کے دوران اپنے جذبات پر قابو نہ پاتے ہوئے کہا کہ آٹھ ماہ کی بچی تو بہت چھوٹی ہوتی ہے اس بچی نے کیسے اتنی زیادہ تکلیف سہی ہوگی؟

اس بچی کے والدین کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے مالیوال نے کہا کہ اس بچی کی ماں کسی کے گھر میں بہت ہی کم معاوضے پر کام کرتی ہے اور باپ ایک مزدور ہے۔ ان لوگوں کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ اور وہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ ان کی بچی کے مجرم کو سخت سے سخت سزا ملنی چاہیے۔ مالیوال نے کہا ، ’’یہ ریپ  صرف ایک آٹھ ماہ کی بچی کا نہیں ہوا، یہ ریپ میرا ہوا، یہ ریپ پورے نطام کا ہوا ہے۔‘‘

اور کتنی زینبیں سماجی، سیاسی زبوں حالی کی بھینٹ چڑھیں گی؟

شرمندگی کا مطالبہ مظلوم خواتین سے ہی؟

’پاکستان گیارہ سے پندرہ برس کے بچوں کے لیے بہت پُرخطر‘

مالیوال کے مطابق دارالحکومت کی پولیس کے وسائل ميں اضافے کی اشد ضرورت ہے اور اس کے ساتھ پولیس کی جواب دہی بھی بڑھانا ہوگی۔ مالیوال نے اپنے ادارے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’ دہلی کمیشن برائے خواتین نے سب کچھ کر کے دیکھ لیا ہے۔ ہم نے تجاویز بھی دی ہیں، ہم ہائی کورٹ سے بھی رجوع کيا اور ہماری وجہ سے دہلی پولیس کے کمشنر کو عدالت بلایا گیا۔ یہ اس ملک کا واحد کمیشن ہے جو اتوار کے روز بھی کام کرتا ہے۔ میں نے گیارہ دن تک صبح دفتر کے بعد دہلی کی سڑکوں کا جائزہ لیا اور احتجاج کیا لیکن کوئی فرق نہیں پڑا۔‘‘ ماليوال نے کہا کہ اگر آٹھ ماہ کی بچی کا ریپ بھی سسٹم کو نہیں جھنجھوڑ پائے گا، تو پھر کچھ بھی اس نظام کو تبدیل نہیں کر پائے گا۔

پاکستان: انصاف کی متلاشی خواتین