1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آوازوں کے ذریعے پیغام رسانی کرنے والا پرندہ

افسر اعوان30 جون 2015

آسٹریلیا میں پایا جانے والا ایک پرندہ نہ صرف حیرت انگیز طور پر مختلف آوازیں نکال سکتاہے بلکہ محققین کے مطابق یہ ان آوازوں کو مِلا کر دوسرے پرندوں تک مختلف پیغامات منتقل کر سکتا ہے۔ یہ صلاحیت اب تک صرف انسان کے پاس ہے۔

https://p.dw.com/p/1Fq9r
تصویر: picture alliance/Mary Evans Picture Library/D. Trounson

آسٹریلیا کے غیر آباد حصوں میں پائے جانے والے اس پرندے کو ’چیسٹ نٹ کراؤنڈ بیبلر‘ کا نام دیا جاتا ہے اور اس کے بارے میں تحقیق PLOS بائیالوجی نامی تحقیقی جریدے میں شائع ہوئی ہے۔ محققین کو یہ بات تو بہت عرصے سے معلوم تھی کہ یہ پرندہ اپنے نغموں کے لیے مختلف آوازیں نکالنے اور انہیں مختلف طریقوں یا پیٹرن سے مِلا سکتا ہے تاہم ان کے بارے میں یہ خیال تھا کہ ان آوازوں کا کوئی مطلب نہیں ہوتا۔

اس تحیقق کی مصنفہ اور زیورخ یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والی محققہ ڈاکٹر سبرینا اینگریسر کے مطابق، ’’کسی نغمے میں آوازوں کی ترتیب میں تبدیلی سے پیغام میں بحیثیت مجموعی تبدیلی کا امکان نہیں ہوتا۔‘‘ تاہم بیبلر پرندہ گاتا نہیں ہے۔ اینگریسر کہتی ہیں، ’’بلکہ اس کی مختلف آوازوں کے وسیع مجموعے مختلف پیغامات قرار دیے جا سکتے ہیں جو چھوٹی چھوٹی مگر مختلف آوازوں سے مل کر بنتے ہیں۔‘‘

محققین نے اس پرندے کی ان مختلف آوازوں کا مطالعہ کیا اور دیکھا کہ مختلف حالات میں آوازوں کے مختلف پیٹرن استعمال کیے گئے۔ مثال کے طور پر دو مختلف آوازوں جنہیں سائنسدانوں نے A اور B کا نام دیا ان کے مجموعے سے مختلف پیغامات دیے گئے مثلاﹰ پرواز کے لیے ساتھی پرندوں کو پیغام کے لیے جو ترتیب استعمال کی گئی وہ AB تھی جبکہ خوراک کی موجودگی کے لیے BAB۔

’چیسٹ نٹ کراؤنڈ بیبلر‘ آسٹریلیا کے غیر آباد حصوں میں پایا جاتا ہے
’چیسٹ نٹ کراؤنڈ بیبلر‘ آسٹریلیا کے غیر آباد حصوں میں پایا جاتا ہے

جب ان محققین نے ان ریکارڈ شدہ آوازوں کو دوبارہ سے چلایا تو پرندوں کی طرف سے انہی کے مطابق رد عمل کا اظہار کیا گیا۔ تحقیقی رپورٹ کے مطابق مثلاﹰ جب خوراک کا ریکارڈ شدہ پیغام چلایا گیا تو ان پرندوں نے اپنے گھونسلوں کی طرف دیکھنا شروع کر دیا اور جب پرواز کا پیغام چلایا گیا تو انہوں نے نئے پرندوں کے انتظار میں باہر دیکھنا شروع کر دیا۔

اس تحقیق کے شریک مصنف اور زیورخ یونیورسٹی کے محقق ڈاکٹر سائمن ٹاؤن سینڈ کے مطابق، ’’یہ پہلا موقع ہے جب انسانوں کے علاوہ کسی جاندار میں بے معنی آوازوں کو مختلف انداز سے ترتیب دے کر نئے با معنی پیغامات دینے کی صلاحیت کا پتہ چلا ہے۔‘‘

اس تحقیق میں شریک سائنسدانوں کے مطابق اس اسٹڈی کے نتائج ’’ زبان دانی کے جو طریقہ کار ہم آج استعمال کر رہے ہیں یہ ممکنہ طور پر اس کے ابتدائی مراحل پر روشنی ڈال سکتے ہیں۔‘‘