1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آسیہ بی بی کو بچانے کی کوششیں جاری

Esther Felden / امجد علی24 فروری 2015

آسیہ بی بی کو2010ء میں توہین رسالت کے الزام میں سزائے موت سنائی گئی تھی۔ اس کا شوہر عاشق مسیح اپنی بیوی کو بچانے کی کوششوں کے سلسلے میں منگل چوبیس فروری کو جنیوا میں اقوام متحدہ کی حقوقِ انسانی کونسل سے رجوع کر رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/1EgV4
عاشق مسیح اپنی بیٹیوں کے ہمراہ
عاشق مسیح اپنی بیٹیوں کے ہمراہتصویر: picture alliance/dpa

مسیحی خاتون آسیہ بی بی کے گاؤں کی مسلمان عورتوں نے اُس پر الزام لگایا تھا کہ اُس نے پیغمبرِ اسلام کی شان میں گستاخی کی ہے۔ اس پر آسیہ بی بی کو پنجاب کی ایک عدالت نے موت کی سزا سنائی۔

آسیہ گزشتہ چار برسوں سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہے اور تب سے اُس کا شوہر عاشق مسیح اُسے بچانے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں، یورپی پارلیمان اور سابقہ پاپائے روم بینیڈکٹ شانزدہم کی طرف سے اپیلوں اور تمام تر قانونی کوششوں کے باوجود آسیہ بی بی کی سزا کی معافی اور اُس کی رہائی کی کوئی صورت پیدا نہیں ہو رہی ہے۔

آسیہ بی بی کو 2010ء میں توہینِ رسالت کے قانون کے تحت موت کی سزا سنائی گئی تھی
آسیہ بی بی کو 2010ء میں توہینِ رسالت کے قانون کے تحت موت کی سزا سنائی گئی تھیتصویر: picture-alliance/dpa/Governor House Handout

گزشتہ سال ایک اپیل کورٹ نے آسیہ کے لیے سزائے موت کی توثیق کر دی۔ آسیہ نے اس فیصلے کے خلاف اپیل کر دی اور اب یہ سارا معاملہ سپریم کورٹ میں ہے۔ کوئی حتمی فیصلہ آنے میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔

ڈوئچے ویلے سے باتیں کرتے ہوئے عاشق مسیح نے بتایا کہ زندگی اُس کے اور اُن کے پانچ بچوں کے لیے ایک عذاب بن گئی ہے:’’بار بار کی دھمکیوں کے بعد ہم مسلسل اپنا ٹھکانہ بدلتے رہتے ہیں، کبھی ایک جگہ کبھی کسی دوسری جگہ۔ ایک دوسرے کو سہارا دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ پنتالیس سال تک مَیں اپنے آبائی گاؤں میں رہا، جہاں میرے بہت سے دوست تھے لیکن اب مَیں وہاں لوٹ کر نہیں جانا چاہتا۔‘‘

عاشق مسیح نے بتایا کہ وہ لوگوں سے، خصوصاً مسلمانوں سےبات کرنے سے ڈرتا ہے کہ کہیں وہ جان نہ جائیں کہ وہ کون ہے۔ پاکستان کی اٹھارہ کروڑ سے زیادہ کی آبادی میں مسیحیوں کی تعداد تقریباً اٹھائیس لاکھ بنتی ہے۔ عاشق مسیح کے مطابق پاکستان میں مسیحیوں کے ساتھ انسانوں جیسا برتاؤ نہیں کیا جاتا۔

چوبیس نومبر 2010ء کی اس تصویر میں عاشق مسیح اپنی بیٹیوں کے ہمراہ اپنی بیوی کو معافی اور رہائی دیے جانے سے متعلقہ دستاویزات اُس وقت کے وزیر برائے اقلیتی امور شہباز بھٹی کے حوالے کر رہا ہے
چوبیس نومبر 2010ء کی اس تصویر میں عاشق مسیح اپنی بیٹیوں کے ہمراہ اپنی بیوی کو معافی اور رہائی دیے جانے سے متعلقہ دستاویزات اُس وقت کے وزیر برائے اقلیتی امور شہباز بھٹی کے حوالے کر رہا ہےتصویر: AP

اَسّی کے عشرے میں پاکستان میں متعارف کروایا جانے والا توہینِ رسالت کا قانون خود پاکستان میں بھی متنازعہ ہے اور کہا جاتا ہے کہ لوگ اپنی ذاتی لڑائی جھگڑوں اور مفادات کے لیے اس قانون کو ناجائز طور پر استعمال کرتے ہیں۔ اس قانون میں ترمیم کے لیے اب تک کی جانے والی تمام تر کوششیں قدامت پسند سیاستدانوں اور سخت گیر مذہبی لیڈروں کی مزاحمت کے باعث ناکام ہو چکی ہیں۔

اگرچہ اب تک پاکستان میں اس قانون کے تحت کسی کی بھی سزائے موت پر عملدرآمد نہیں ہوا لیکن لوگ قانون کو ہاتھ میں لیتے ہوئے خود ہی اُن لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں، جن کو وہ توہینِ رسالت کا مرتکب سمجھتے ہیں، جیسا کہ پنجاب کے سابق گورنر سلمان تاثیر یا پھر اقلیتی امور کے وزیر شہباز بھٹی کے ساتھ ہوا۔

عاشق مسیح کو ڈر ہے کہ اُس کے اور اُس کی بیٹیوں کے ساتھ بھی یہی کچھ ہو سکتا ہے۔ اس خوف کے باوجود وہ منگل چوبیس فروری کو سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں انسانی حقوق کی کونسل کے اجلاس میں اپنی بیوی کو بچانے کے لیے مدد طلب کر رہا ہے۔ ایک کیتھولک امدادی تنظیم آسیہ بی بی کے حق میں اب تک اٹھارہ ہزار سے زیادہ افراد کے دستخط جمع کر چکی ہے۔

عاشق مسیح کا کہنا ہے کہ اُس کے کنبے کی زندگی تباہ و برباد ہو چکی ہے لیکن یہ کہ اپنے بچوں کو اُن کی ماں واپس دلانے کے لیے لیے وہ اپنی جدوجہد جاری رکھے گا:’’ہمیں خدا کی مدد پر بھروسا ہے اور مجھے امید ہے کہ ایک دن میری بیوی ہمارے پاس ہو گی اور ہم امن اور چین سے رہ سکیں گے‘‘۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید