1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آسیہ بی بی: ’وہ گناہ گار کم تھی اور مظلوم زیادہ‘

شیراز راج
1 نومبر 2018

آیات و احادیث، آئین و قانون اور عدالتی فیصلوں کے حوالہ جات سے مزین یہ فیصلہ پاکستان کی سیاسی اور عدالتی تاریخ کا ایک ناقابل فراموش واقعہ ہے، جس کے دیرپا اثرات مرتب ہوں گے۔

https://p.dw.com/p/37VCj
Asia Bibi
تصویر: Getty Images/AFP/M. Bureau

پاکستان میں توہین رسالت کے الزام کے تحت سینکڑوں مقدمات قائم ہوئے۔ کئی ملزمان کو مجرم قرار دے کر سزائیں دی گئیں اور کئی رہا کیے گئے۔ اس دوران نعمت احمر جیسے افسانہ نگار اور شاعر (1992 )، راشد رحمان جیسے نڈر وکیل (2014)، جسٹس عارف اقبال بھٹی جیسے انسان دوست جج (1997) اور منظور مسیح جیسے عام انسان ( 1994) سمیت 62 افراد کو ماورائے قانون قتل کیا گیا۔ ایوب مسیح کی گرفتاری پر بشپ جان جوزف کی بطور احتجاج خود کشی اور سلامت مسیح کی رہائی (1995) کو عالمی شہرت ملی۔

انہی دہائیوں میں گوجرانوالہ کی سڑکوں پر حافظ سجاد طارق کی جلتی لاش کے ٹکڑے بھی گرے (1994) ، شانتی نگر (1997) گوجرہ (2009) اور جوزف کالونی (2013) میں بے گناہوں کے دروبام نذر آتش بھی ہوئے اور 2017ء  میں پشاور کے ایک خوبرو اور ذہین نوجوان، مشعال خان کے خوابوں کا محل بھی جل کر بھسم ہوا۔ اس شعلہ کی جلن سبھی دلوں میں ایک سی تھی۔

توہین مذہب کے ’جھوٹے سچے واقعات‘ کے تسلسل میں، پنجاب کے ایک غیر معروف قصبہ ننکانہ صاحب میں چند کھیت مزدور عورتوں کی باہمی چپقلش کے نتیجہ میں، ایک مزدور مسیحی خاتون آسیہ بی بی پر لگایا جانے والا توہین مذہب کا الزام کوئی انوکھا واقعہ نہیں تھا۔ تاہم سلمان تاثیر(2011 ) اور شہباز بھٹی کے قتل (2011) اور ممتاز قادری کی پھانسی (2016) نے اسے اپنی نوعیت کے تمام مقدمات سے نمایاں کر دیا۔ انسانی حقوق کے عالمی اداروں، تنظیموں، مغربی حکومتوں، یورپی یونین جیسے اتحادوں، اقوام متحدہ کی سالانہ رپورٹوں، عالمی کانفرنسوں اور میڈیا مباحث میں یہ مقدمہ پاکستان کی ایک منفی ’پہچان‘ بن گیا۔ گزشتہ روز آخر کار، اس مقدمہ کی کہانی انجام کو پہنچی۔

Shiraz Raj Gill Blogger
شیراز راجتصویر: Privat

اس مشہور زمانہ مقدمہ کے فیصلہ کی گونج تا دیر سنائی دیتی رہے گی۔ 52 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ، صرف آسیہ بی بی سے متعلق نہیں بلکہ اس میں توہین رسالت کے قوانین میں موجود تقریباً تمام پیچیدگیوں پر دو ٹوک فیصلہ دیا گیا ہے۔ کیا کسی فرد یا ہجوم کو قانون ہاتھ میں لینے کا اختیار حاصل ہے؟ الزام کے ثبوت کی ذمہ داری کس پر ہے؟ کیا الزام ثابت ہونے تک ملزم کو بے گناہ سمجھا جائے؟ کیا توہین رسالت مقدمات میں ملزم کا ارادہ اور نیت ملحوظ خاطر رکھا جانا چاہیے؟ کیا توہین رسالت کا جھوٹا الزام بجائے خود توہین رسالت نہیں؟ کیا ان قوانین کے غلط استعمال کے امکان کا اقرار اور کسی بے گناہ کو سزا سے بچاؤ کی تدابیر اسلام کے تصور انصاف کے عین مطابق نہیں؟ اور کیا آئین پاکستان میں دیے گئے بنیادی حقوق ہر شہری کو حاصل ہیں؟

بدامنی پر اکسانے والے ملک دشمن ہیں، عمران خان کا قوم سے خطاب

تفصیلی فیصلہ میں قرآنی آیات سے واضح کیا گیا ہے کہ پیغمبر اسلام کی تعظیم اللہ تعالی کا حکم ہے اور اس کی خلاف ورزی کرنے والے سخت سزا کی حقدار ہیں۔ چند احادیث کے علاوہ ابن تیمیہ اور علامہ قرطبی کے حوالوں سے یہ استدلال قائم کیا گیا ہے کہ اسلام کی رو سے توہین رسالت ناقابل معافی جرم ہے۔

فیصلہ میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ ’’رواداری اسلام کا بنیادی اصول ہے۔ یہ ایک مذہبی اور اخلاقی فرض ہے اور انسانی وقار ،انسانی مساوات اور سوچ، ضمیر اور عقیدہ کی اساسی آزادیوں سے متعلق ہے۔۔۔۔۔۔اسلام کچھ بھی برداشت کر سکتا ہے لیکن ناانصافی، جبر اور انسانی حقوق کی پامالی برداشت نہیں کر سکتا۔ اسلام میں عقیدہ کی آزادی کی ضمانت دی گئی ہے اور اس حوالے سے ہر قسم کے جبر کی ممانعت ہے۔‘

تاہم، قانون توہین مذہب کے غلط استعمال اور اس کے ممکنہ نتائج کی وضاحت کرتے ہوئے، بپھرے ہجوم کے ہاتھوں پشاور کے نوجوان، مشعال خان کے قتل کے ساتھ ساتھ، ایوب مسیح کیس کا حوالہ دیا گیا ہے کہ جب ملزم کی گرفتاری کے باوجود گاؤں کی مسیحی آبادی کو بے دخل کر دیا گیا اور ملزم پر جیل کے اندر حملہ کیا گیا۔ ملزم کو سزائے موت دی گئی، جسے ہائی کورٹ نے قائم رکھا لیکن سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران واضح ہوا کہ یہ دراصل سات مرلے کے پلاٹ کا جھگڑا تھا، جس کے لیے جھوٹا الزام لگایا گیا تھا۔

فیصلے میں آئین پاکستان کی دفعہ چار کا حوالہ دیا گیا ہے، جس کے مطابق، ’’جان و مال اور وقار کا تحفظ ہر شہری کا ناقابل تنسیخ حق ہے۔‘‘ اسی طرح آئین کی دفعہ 37 ، 157(2) اور ضابطہ فوج داری کے سیکشن 28 کا حوالہ بھی دیا گیا ہے۔ فیصلہ کے مطابق، ’’قانون کا ایک مستحکم اصول یہ ہے کہ الزام لگانے والے پر الزام ثابت کرنے کا بار ہو گا۔ یہ ثبوت شک و شبہ سے بالاتر ہونا چاہیے۔ مقدمہ کی تمام تر کارروائی کے دوران ملزم کے بےگناہی اس وقت تک قائم رہے گی جب تک استغاثہ جرم ثابت نہیں کر دیتا۔‘‘

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ’’الزام کا شک و شبہ سے بالاتر ثبوت‘ فوج داری نظام انصاف کا بنیادی اصول ہے۔ اس اصول کی مدد سے یہ امر یقینی بنایا جاتا ہے کہ کسی بے گناہ کو سزا نہ ملے۔‘‘ اس طرح، ’’یہ کسی فرد یا ہجوم کا حق نہیں کہ وہ اس امر کا فیصلہ کرے کہ توہین مذہب کی گئی ہے یا نہیں۔‘‘ اور ’’ اگر اسلام میں توہین رسالت ایک قابل نفرت اور غیر اخلاقی جرم ہے تو توہین رسالت کا جھوٹا الزام بھی اسی قدر قابل نفرت ہے۔ لہذا یہ یقین دہانی ضروری ہے کہ کسی بے گناہ کو قید و بند یا سزا کی صعوبتیں برداشت نہ کرنا پڑیں۔‘‘

مجھے یقین نہیں آ رہا کہ میں رہا ہو جاؤں گی، آسیہ بی بی

آسیہ بی بی کے خلاف الزام کے مدعی اور گواہوں پر جرح کے بعد یہ کہا گیا ہے کہ ان سب کے بیانات میں اس قدر تضادات ہیں کہ الزام ثابت نہیں کیا جا سکا۔ لہذا شک کا فیصلہ ملزمہ کو دیا جائے گا۔ جسٹس سعید خان کھوسہ کے نوٹ میں بھی یہی استدلال ہے کہ ’’مقدمہ سے متعلق ہر واقعہ اور ہر پہلو میں استغاثہ کے بیانات اس قدر واضح اور سنگین تضادات کا شکار ہیں کہ یہ تاثر قائم کیے بغیر چارہ نہیں کہ اس مقدمہ کے تمام مدعی، گواہوں اور تفتیش کاروں نے سچ نہ بولنے، یا کم از کم پورا سچ نہ بولنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ اس امر میں یہ حقیقت بھی افسوسناک ہے کہ زیریں عدالتیں ان تضادات اور غلط بیانی پر گرفت نہیں کر سکیں۔‘‘

جسٹس کھوسہ کے مطابق، ’’آسیہ بی بی کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانا اور حضرت محمد ﷺ کے نام پر سچ میں جھوٹ کی ملاوٹ کرنا بھی توہین رسالت سے کم نہ تھا۔ عربی زبان میں عاصیہ کا مطلب ’گناہ گار عورت‘ ہے لیکن سچ یہ ہے کہ ، شیکسپئر کے ڈرامے ’کنگ لیئر‘ کے الفاظ میں، ’’وہ گناہ گار کم تھی اور مظلوم زیادہ۔‘‘