1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آسکر ایوارڈ برائے بہترین ہدایتکار: غیر امریکیوں کا غلبہ

عابد حسین28 فروری 2014

عالمی فلمی صنعت میں امریکی شہر لاس اینجلس میں تقسیم کیے جانے والے آسکرز کو سب سے معتبر ایوارڈز خیال کیا جاتا ہے۔ ان میں بہترین ہدایتکار کی کیٹیگری میں غیر امریکی فرنٹ رنزز خیال کیے جاتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1BHK9
تصویر: picture-alliance/landov

گزشتہ بیس برسوں کے دوران بہترین ہدایتکاری کے شعبے میں گیارہ مرتبہ غیر ملکی شخصیات نے امریکی فلم انڈسٹری ہالی وُڈ کے ہدایتکاروں کو پیچھے چھوڑتے ہوئےیہ اعزاز حاصل کیے۔ صرف نو مرتبہ امریکی ہدایتکار یہ ایوارڈ جیتنے میں کامیاب رہے۔ گزشتہ تین برسوں میں غیر امریکی ہدایتکاروں نے ایوارڈ جیتنے کی ہیٹ ٹرک مکمل کر رکھی ہے۔ رواں برس کے آسکر کے لیے بھی فیورٹ دو غیر امریکی ہدایتکار ہیں اور ان میں سے ایک برطانیہ اور دوسرا میکسیکو سے تعلق رکھتا ہے۔

Filmstill Gravity
گریوٹی فلم کا ایک منظرتصویر: picture-alliance/AP/Warner Bros. Pictures

غیر امریکی ہدایت کاروں کی ہیٹ ٹرک میں برطانوی، فرانسیسی اور تائیوانی ہدایتکار شامل ہیں۔ سن 2011 میں برطانوی ہدایتکار ٹام کُوپر نے ’دی کنگز اسپیچ‘ نامی فلم کی تخلیق پر بہترین ہدایتکاری کا آسکر حاصل کیا تھا۔ سن 2012 میں فرانس کے ہدایتکار مِشل آزاناویسیئس (Michel Hazanavicius) نے اپنی فلم ’دی آرٹسٹ‘ پر آسکر جیتا۔ گزشتہ برس تائیوان میں پیدا ہونے والے اَنگ لی کو فلم ’لائف آف پائی‘ پر بہترین ہدایتکار کا آسکر دیا گیا تھا۔

فلمی دنیا کے بعض مبصرین کا خیال ہے کہ امریکی فلم انڈسٹری میں پروڈیوسر اور ہدایتکار عالمی منڈیوں میں سپر ہٹ رہنے والی فلمیں بنانے میں کامیاب ہو رہے ہیں لیکن ان میں غیر معمولی فنکارانہ صلاحیتوں کا فقدان ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ سردست ہالی وُڈ کے پروڈیوسرز فلم پر خرچ کیے گئے سرمائے کو واپس حاصل کرنے کی کوشش میں تو کامیاب ہو رہے ہیں لیکن ماضی کے عظیم ہدایتکاروں کی طرح شاہکار تخلیق کرنے سے قاصر دکھائی دیتے ہیں۔

Filmstill 12 Years a Slave
بارہ سالہ غلام کا ایک منظرتصویر: picture-alliance/AP/Fox Searchlight, Francois Duhamel

یہ ایک دلچسپ امر ہے کہ آسکر ایوارڈز میں غیر ملکی ہدایتکاروں نے مسلسل اپنی شناخت کا عمل جاری رکھا۔ ہالی وُڈ کے ہدایتکاروں کو خاص طور پر برطانوی فلم انڈسٹری سے منسلک ہدایتکار مسابقت دیتے چلے آ رہے ہیں۔ ماضی میں کئی نامی گرامی غیرملکی ہدایتکاروں نے تو ہالی وُڈ کاؤنٹی میں سکونت ہی اختیار کر لی تھی۔ ان میں سن 1920 کے عشرے میں جرمنی سے تعلق رکھنے والے معروف ہدایتکار ارنسٹ لُوبِچ (Ernst Lubitsch) اور ایف ڈبلیُو مُرناؤ (F.W. Murnau) اہم ہیں۔ بعد میں سن 1930 کے عشرے میں برطانوی مصنف اور ہدایتکار الفریڈ ہچکاک بھی ہالی وُڈ منتقل ہو گئے تھے۔

کیلیفورنیا یونیورسٹی کے استاد جوناتھن کُنز کا کہنا ہے کہ امریکی فلم انڈسٹری کو مسلسل غیر ملکی ہدایتکاروں سے جِلا ملتی رہی ہے اور ساٹھ اور ستر کی دہائیوں میں مشرقی یورپ کی مطلق العنان حکومتوں کے دور میں کئی نامور ہدایتکار امریکا منتقل ہوئے۔ جوناتھن کُنز نے اس صف میں آسکر ایوارڈز جیتنے والے پولستانی ہدایتکار رومان پولانسکی اور سابقہ چیکو سلوواکیہ سے تعلق رکھنے والے میلوس فورمین کی امریکا آمد کو انتہائی اہم قرار دیا۔ سدرن کیلیفورنیا یونیورسٹی سے منسلک پروفیسر اسٹیو رَوس کا خیال ہے کہ نصف صدی قبل ہالی وُڈ کی زیادہ تر آمدن شمالی امریکا اور یورپ سے ہوتی تھی لیکن اب ساری دنیا اُس کی منڈی بن چکی ہے۔ رَوس نے مزید کہا کہ آج کل ہالی وُڈ کو 80 فیصد آمدن بیرون امریکا سے ہو رہی ہے اور اِس باعث کمرشلزم امریکی فلمی صنعت میں زیادہ نمایاں ہو گیا ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید