1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آب و ہوا میں تبدیلی اور زمین کے لئے ان گنت خطرات

22 جون 2010

ڈوئچے ويلے کے تعاون سے21 تا 23 جون منعقد ہونے والے گلوبل ميڈيا فورم ميں عالمگير موسمياتی تبديلیوں کو اِس بار مرکزی اہميت حاصل ہے۔ جرمنی کے ترقیاتی پالیسی کے انسٹيٹيوٹ کے ڈائریکٹر ڈرک ميسنر نے فوری اقدامات پر زور دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/O011
DIE کے ڈائریکٹر ڈِرک میسنرتصویر: picture-alliance/ dpa

ماہرين کا کہنا ہے کہ موسم اور آب و ہوا ميں تبديلی ميں انسانی معاشروں کے لئے ان گنت خطرات پنہاں ہيں۔ اُن کے مطابق اس چيلنج کا مناسب مقابلہ کرنے اور عالمی درجہء حرارت ميں اضافے کو زيادہ سے زيادہ دو ڈگری سينٹی گريڈ تک محدود رکھنے کے لئے بنی نوع انسان کے پاس بہت تھوڑا سا وقت باقی ہے۔ يورپی يونين کا منصوبہ ہے کہ وہ کاربن ڈائی آکسائیڈ اور زمين کے درجہء حرارت ميں اضافہ کرنے والی دوسری گيسوں کے اخراج ميں سن 2020ء تک، سن 1990ء کے مقابلے ميں 20 سے 30 فيصد تک کمی کر دے گی۔ آب و ہوا ميں ايک تباہ کن تبديلی سے بچنے کے لئے يہ حکمت عملی لازمی ہے۔

Japan Klimawechsel Umwelt Emmission Co2 Rauch einer Raffinerie
کاربن گیسوں کے اخراج سے زمینی درجہء حرارت میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہےتصویر: picture-alliance/ dpa

زمين کو گرم کرنے والی گيسوں کے فضا ميں اب تک کے اخراج سے ہی طویل المدتی بنیادوں پر زمين کے درجہء حرارت ميں مجموعی طور پر ايک اعشاريہ تين ڈگری سينٹی گريڈ کے اضافے کا انديشہ ہے۔ آب و ہوا پر تحقیق کرنے والے ماہرین آئندہ گيسوں کے اخراج کا موزوں تخمينہ لگا کر يہ اندازہ کرسکتے ہيں کہ عالمی درجہء حرارت ميں کتنا اضافہ ہوگا۔ اعداد و شمار سے يہ ظاہر ہوتا ہے کہ اگر زمين کو گرم کرنے والی گيسوں کی مقدار زيادہ رہی، توسن 2100ء تک اوسط عالمی درجہء حرارت ميں صنعتی دور سے پہلے کے مقابلے ميں تين سے چھ ڈگری سينٹی گريڈ تک کا اضافہ ہو سکتا ہے۔ جن اندازوں ميں اخراج کی مقدار کو کم رکھا گيا ہے، اُن کے مطابق بھی زمين کے درجہء حرارت ميں دو سے تين ڈگری سينٹی گريڈ کا اضافہ ہو سکتا ہے۔

Dritter Teil des Klimareports vorgestellt
بدلتے موسم پانی اور خوراک کی قلت کے بڑھتے ہوئے مسائل کا باعث بنیں گےتصویر: picture-alliance/dpa

آب و ہوا کی تبديلی اپنے اندر معاشرتی اور اقتصادی بحران برپا کرنے اور ارضی نظام ميں تبديلی لانے کی قوت رکھتی ہے۔ دنيا کے غريب ممالک اس سے زيادہ متاثر ہوں گے ليکن امير ملک بھی اس کے تباہ کن اثرات سے بچ نہيں سکيں گے۔ يہ بات خاص طور پر اُس صورتحال کے بارے ميں کہی جاتی ہے، جب درجہء حرارت ميں دو ڈگری سے بھی زيادہ کا اضافہ ہو جائے۔

اگر زمينی آب وہوا ميں تبديلی پر قابو نہ پايا جا سکا، تو دنيا کے بہت سے علاقوں ميں بارشوں کے نظام ميں تبديلی سے پانی کی شديد قلت پيدا ہوجائے گی۔ خشک سالی ميں اضافہ ہوگا اور درجہء حرارت دو ڈگری سے بھی زيادہ بڑھنے سے سمندروں کی سطح مستقل طور پر کئی ميٹر بلند ہوجائے گی، جس سے ساحلی علاقوں پر واقع لندن، نيويارک اور ممبئی جيسے بڑے شہر زير آب آ جائيں گے۔ بہت سے جزيرے صفحہء ہستی سے مٹ جائيں گے۔

تبصرہ: ڈِرک میسنر (ڈائریکٹر جرمن ادارہ برائے ترقیاتی پالیسیDIE) / شہاب احمد صدیقی

ادارت: امجد علی