آئس لینڈ، شامی مہاجرین کی غیرمتوقع پناہ گاہ
2 فروری 2017سرد ہوائیں چل رہی ہیں اور برسات ہو رہی ہے، آس پاس ہر طرف برف ہی برف ہے۔ آئس لینڈ میں خوش آمدید۔ دمشق سے تعلق رکھنے والے جمعہ اور ان کا خاندان آرکٹک کے خطے کے اس سرد ملک میں مقیم ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ یہاں تحفظ کے احساس کے ساتھ جینے پر خوش ہیں۔
تین لاکھ تیس ہزار کی آبادی والا ملک آئس لینڈ جہاں آتش فشاں بھی ہیں اور گلیشیئرز بھی، شامی خانہ جنگی کی وجہ سے ملک چھوڑنے والے تارکین وطن کے لیے ایک غیرعمومی منزل سمجھا جانے والا ملک ہے، مگر سن 2015 سے اب تک 118 شامی باشندوں نے وہاں سیاسی پناہ حاصل کی ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق آئس لینڈ پہنچنے والے شامی مہاجرین میں سے زیادہ تر وہ ہیں، جنہیں نے پہلے شام سے لبنان ہجرت کی اور پھر برف پوش ملک آئس لینڈ پہنچے۔ آئس لینڈ پہنچنے والے زیادہ تر شامی مہاجرین دارالحکومت رِکجاوِک اور قریبی علاقوں میں مقیم ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ مہاجرین ملک کے شمالی شہر اکوریری میں بھی رہ رہے ہیں، جو قطب شمالی سے قریب 70 کلومیٹر دور ہے۔
اسی علاقے میں جمعہ، ان کی اہلیہ اور پانچ بچے رہتے ہیں۔ ریاست ایک برس سے ان کے گھر کا کرایہ ادا کر رہی ہے، جب کہ ان کے یومیہ اخراجات بھی ریاست ہی ادا کرتی ہے۔ انہیں آئس لینڈ کی زبان اور دیگر ثقافتی کورس کے لیے مالی مدد ریڈ کراس سے مل رہی ہے۔
جمعہ کے لیے اس وقت بڑا مسئلہ آئس لینڈ کی زبان سیکھنا ہے۔
مگر کیا آئس لینڈ کا شدید سرد موسم ان کے لیے بڑا چیلنج ہے؟ بالکل نہیں۔ جمعہ کا کہنا ہے، ’’ہم کسی بھی موسمی صورت حال میں رہ سکتے ہیں۔ مشکل ہو یا آسان ہم کہیں بھی رہ سکتے ہیں۔ مسئلہ ہے تو زبان کا۔ یہ کچھ مشکل ہے۔ ہمیں کچھ وقت درکار ہوگا اور پھر ہم یہ بھی سیکھ لیں گے۔‘‘
مگر جمعہ کے بچے تیزی سے یہ زبان سیکھ رہے ہیں۔ وہ مقامی بچوں کو دوست بنا رہے ہیں اور ان کے ساتھ کھیلتے بھی ہیں اور ملتے جلتے بھی رہتے ہیں۔