1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

"Systems 2006" : حفاظتی آلات اور نظاموں کی تجارتی نمائش

24 اکتوبر 2006

جرمنی کے شہر میونخ میں حفاظتی آلات اور نظاموں کی تجارتی نمائش میں 28 ممالک کے 1,200 سے زیادہ نمائش کنندگان شرکت کر رہے ہیں۔ اِس تجارتی نمائش میں زیادہ دلچسپی مختلف اقتصادی اور کاروباری ادارے لے رہے ہیں، جو اِس موقع پر یہ جاننا چاہتے ہیں کہ وہ انفارمیشن ٹیکنالوجی، مواصلاتی ذرائع اور ڈیجیٹل ذرائع ابلاغ کو کیسے اپنے روزمرہ کی سرگرمیوں کے دوران استعمال کر سکتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/DYIO
Biometrics ۔ انگوٹھے کے نشانات کو شناخت کرنے والے آلات
Biometrics ۔ انگوٹھے کے نشانات کو شناخت کرنے والے آلاتتصویر: AP

اس تجارتی نمائش کو دیکھنے کے لئے جانے والوں میں سے 95 فیصد افراد وہ ہیں، جن کا تعلق کسی نہ کسی طرح اسی شعبے سے ہے۔ ان میں سے نصف وہ ہیں، جو اِن حفاظتی آلات کو استعمال کرتے ہیں۔ بقیہ نصف وہ ہیں، جو اِس شعبے میں خدمات فراہم کرتے ہیں، اِس طرح کے آلات تیار کرتے ہیں یا پھر اِن کا کاروبار کرتے ہیں۔

انفرادی طور پر مختلف آلات کی بجائے مکمل حفاظتی نظام میونخ کی اس تجارتی نمائش کو دیکھنے کے لئے جانے والوں کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔

یہاں ایک اہم پہلو پبلک مقامات پر نصب کئے جانے والے حفاظتی نظام ہیں۔ تقریباً ہر چوتھا نمائش کنندہ اِسی سے متعلقہ آلات اور مصنوعات لے کر یہاں شرکت کر رہا ہے۔

آج کل کمپیوٹر کی مدد سے کئے جانے والے حفاظتی انتظامات، ویڈیو کے ذریعے نگرانی اور Biometrics یعنی حیاتیاتی نظاموں کے شعبوں میں سب سے زیادہ کام ہو رہا ہے۔ بائیو میٹرکس کے شعبے میں جرمنی سے بھی زیادہ کام برطانیہ میں ہو رہا ہے۔

ایسے میں یہ بات باعث تعجب نہیں ہے کہ حفاظتی آلات اور نظام تیار کرنے والے جرمن اداروں کی مرکزی تنظیم BITCOM نے اپنی افتتاحی پریس کانفرنس میں ایسے حساس اور ذہین سوفٹ ویئر نظاموں کی تیاری پر زور دیا، جن کی مدد سے نگرانی کے شعبے کو آسان اور بہتر بنایا جا سکتا ہو۔ جرمن شہر Mainz کے مرکزی ریلوے اسٹیشن پر آج کل ایک آزمائشی منصوبہ جاری ہے، جس میں افراد کو اِسی طرح کے حساس اور اعلیٰ ٹیکنالوجی کے حامل نظاموں کی مدد سے شناخت کیا جاتا ہے۔

BITCOM کے نائب چیئرمین پروفیسر Jörg Menno Harms کہتے ہیں کہ جرمنی اِس شعبے کی ایک بڑی منڈی ہے لیکن قدرے تذبذب کے ساتھ وہ یہ بھی اعتراف کرتے ہیں کہ برطانیہ کے مقابلے میں جرمنی میں وہ بحث کہیں زیادہ شدت کے ساتھ جاری ہے، جس میں ایک طرف حفاظتی آالات تیار کرنے والی صنعت ہے اور دوسری جانب شہریوں کے نجی اعدادوشمار کی حفاظت کی علمبردار تنظیمیں۔