1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

Mine kafon بارودی سرنگوں کے خلاف ایک منفرد ہتھیار

Ali Amjad4 اپریل 2013

بارودی سرنگوں کو ناکارہ بنانے کے لیے ہوا کی مدد سے چلنے والی ایک بہت بڑی بال تیار کی گئی ہے۔ یہ ہالینڈ میں کام کرنے والے ایک افغان انجینئر مسعود حسانی کی ایجاد ہے۔

https://p.dw.com/p/18A0Z
تصویر: Massoud Hassani

افغان انجینئر مسعود حسانی نے اپنی تخلیق کو بارودی سرنگوں کے کفن ’Mine Kafon‘ کا نام دیا ہے۔ دور سے دیکھنے پر یہ ایک بہت بڑے دندانے دار پھول’ گل قاصدی‘ کی طرح دکھائی دیتا ہے۔ اس کی بانس سے بنی ہوئی 170 ٹانگیں ہیں، جو مرکز میں ایک گیند سے جڑی ہوئی ہیں۔ جبکہ ہر ٹانگ کے دوسرے کونے پر پلاسٹک کی پلیٹ سی لگی ہوئی ہے تاکہ ہوا اپنے زور سے اس دیو قامت بال کو آگے کی جانب دھکیل سکے۔ لندن میں 2012ء کے ڈیزائن ایوارڈ میں اس 170 ٹانگوں والی خوبصورت نظر آنے والی اس شے کو اول انعام دیا گیا۔

Mine kafon کی تیاری میں اس بات کا خاص خیال رکھا گیا ہے کہ کا اس کا وزن اتنا ضرور ہو کہ یہ کسی بارودی سرنگ کو ناکارہ بنا سکے۔ اس بارے میں حسانی نے بتایا کہ جب یہ بال بارودی سرنگ پر سے گزرتی ہے تو دھماکہ اس بال کو مکمل طور پر تباہ نہیں کر پاتا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ایک Mine Kafon پر تقریباً چالیس یورو کی لاگت آ تی ہے اور اس سے کئی بارودی سرنگوں کو ناکارہ بنایا جا سکتا ہے۔ ان کے خیال میں بال کے مرکز میں GPS نظام کی مدد سے سلامتی کے ادارے کسی بھی وقت اس بال کے مقام معلوم کرنے کےساتھ ساتھ بارودی سرنگوں سے پاک کیے جانے والےعلاقے کی بھی نشاندہی بھی کر سکتے ہیں۔

Projekt Mine Kafon zur Minenbekämpfung
لندن میں 2012ء کے ڈیزائن ایوارڈ میں اس 170 ٹانگوں والی خوبصورت شے کو اول انعام دیا گیاتصویر: Massoud Hassani

مسعود حسانی تیرہ برس قبل تعلیم کے حصول کے لیے ہالینڈ آئے تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ اپنے بچپن میں وہ کابل میں ہوا سے چلنے والے کھلونے بنایا کرتے تھے۔ ان کے بقول’’بچپن میں ہم پہیوں والے بہت سے کھلونے بناتے تھے۔ ہم کابل میں جس علاقے میں رہا کرتے تھے وہاں بارودی سرنگیں موجود تھیں۔ اس دوران تیز ہوا کی وجہ سے ہمارے بنائے ہوئے بہت سے کھلونے تیزی سے ممنوعہ علاقے کے مرکز میں پہنچ جاتے تھے۔ وہیں سے Mine Kafon بنانے کا خیال میرے ذہن میں آیا‘‘۔

حسانی کے بقول ’’جنگ ایک فلم کی طرح تھی۔ میرے لیے جنگ کوئی خطرہ نہیں بلکہ ایک کھیل تھا‘‘۔ وہ کہتے ہیں کہ اب انہیں جنگ سے ہونے والے تباہی کا نقصان کا اندازہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ابھی بھی افغانستان میں ہر سال تین ہزار افرد بارودی سرنگوں کی زد میں آ کر ہلاک ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے ان کی کوشش ہے کہ جس قدر جلد ممکن ہو ان کی ایجاد کا عملی طور پر فائدہ اٹھایا جائے۔

W.Nazimi / ai / zb