1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

IDPs کے لئے امداد میں کمی: پاکستان ہیومینیڑین فورم

21 اپریل 2010

IDPs کے لئے کام کرنے والی ملکی اور بین الاقوامی تنظیموں نے خبردار کیا ہے کہ بے گھر ہونے والے ان پناہ گزینوں کی فلاح کے لئے دستیاب عالمی امداد میں کمی واقع ہورہی ہے۔

https://p.dw.com/p/N2Lc
تصویر: AP

گزشتہ برس سوات آپریشن کے باعث 30 لاکھ لوگ اپنا گھر بار چھوڑ کر محفوظ مقامات پر پناہ لینے پر مجبور ہوئے تھے، جن میں سے اکثریت اب اپنے گھروں کو واپس لوٹ چکی ہے۔ مگر اب بھی بہت سے افراد اپنا گھر بار چھوڑ کر کیمپوں کا رخ کر رہے ہیں۔ اس مرتبہ متاثر ہونے والے افغان سرحد کے قریب واقع علاقے ہیں۔

متاثرین سوات کی مدد اور ان کی گھروں میں واپسی کے لئے دنیا کے بہت سے ممالک اور اداروں نے امداد فراہم کی تھی۔ تاہم ایک برس گزر جانے کے بعد IDPs کے لئے فراہم کی جانے والی امداد میں کمی واقع ہونا شروع ہوگئی ہے۔

Flüchtlingslager in Pakistan
گزشتہ برس سوات آپریشن کے باعث 30 لاکھ لوگ اپنا گھر بار چھوڑ کر محفوظ مقامات پر پناہ لینے پر مجبور ہوئے تھے۔تصویر: AP

پاکستان میں اقوام متحدہ سمیت IDPs کے لئے کام کرنے والی درجنوں بین الاقوامی تنظیموں کے ایک فورم کے مطابق اس وقت 13 لاکھ سے زائد افراد پناہ گزین کیمپوں میں موجود ہیں۔ ’پاکستان ہیومینیٹرین فورم‘ نامی اس ادارے کی چیئر پرسن کیٹلن بریڈی کا کہنا ہے کہ ایک طرف تو اس بحران کے حل ہونے کے امکانات دور دور تک دکھائی نہیں دیتے تو دوسری طرف ایسے لاکھوں خاندان ہیں، جنہیں امداد کی سخت ضرورت ہے۔

"پریشانی کی بات یہ ہےکہ درکار امداد کے محض 20 فیصد کی دستیابی کی وجہ سے ہمیں یا تو بہت سے پروگرام بند کرنا ہونگے یا پھر نئے شروع ہونے والے پروگراموں کی ابتدا ہی نہیں ہوپائے گی۔ اور ہم ان پروگراموں کی بات کررہے ہیں، جو جان بچانے کے لئے بنیادی حیثیت رکھتے ہیں، مثلاﹰ صحت ،پانی کی فراہمی اور صفائی وغیرہ۔ یہ ایسے پروگرام ہیں جو لوگوں کی زندگی بچانے کے لئے نہایت اہم ہیں۔ ہم موجودہ صورتحال کے باعث کافی فکر مند ہیں۔"

ڈوئچے ویلے سے گفتگو کے دوران کیٹلن بریڈی نے امداد کی کمی کے اثرات کو خطرناک قرار دیا۔’’میرا خیال ہے کہ اس کے اثرات فوری طور پر ظاہر ہونا شروع ہوجائیں گے اور ان میں کچھ تو واقعی بہت شدید ہوسکتے ہیں، مثلاﹰ اگر صحت سے متعلق کوئی پروگرام ختم ہوتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ بیماروں کا علاج نہیں ہوپائے گا جس کے نتیجے میں دوران زچگی خواتین کی اموات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ اگر پانی کی فراہمی یا نکاسی کا پروگرام ختم ہوتا ہے تو اس کا نتیجہ دیگر مشکلات کے علاوہ پانی سے پھیلنے والی بیماریوں میں اضافے کی صورت میں سامنے آئے گا۔ یعنی اگر امدادی کام رکتے ہیں تو خطرناک اثرات سامنے آسکتے ہیں اور بدقسمتی سے امداد کی کمی کی وجہ سے یہ اثرات اگلے چند مہینوں میں سامنے آنا شروع ہوجائیں گے۔"

تاہم بین الاقوامی برادری کی طرف سے امداد کی فراہمی کے امکانات کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں ’پاکستان ہیومینیٹیرین فورم‘ کی چیئرپرسن کیٹلن بریڈی کا کہنا تھا کہ بہت سے امداد دینے والے ادارے فنڈز دینے کا وعدہ توکرچکے ہیں تاہم ابھی تک یہ وعدے پورے نہیں ہوئے ہیں۔ کیٹلن کے مطابق ’یورپین کمیونٹی ہیومینیٹرین ایڈ‘ کی طرف سے بھی امداد ملنے کی امید ہے۔

رپورٹ: افسر اعوان

ادارت: گوہر نذیر گیلانی