1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

Davos میں عالمی اقتصادی فورم کا آغاز

23 جنوری 2008

سوئٹزرلینڈ میں داووس کے مقام پر آج سے شروع ہونے والا عالمی اقتصادی فورم اپنی نوعیت کا 38 واں سالانہ اجتماع ہے لیکن خاص بات یہ ہے کہ عالمی سطح پرجس طرح کے معیشی حالات میں داووس کا امسالہ فورم شروع ہواہےوہ پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئے تھے۔

https://p.dw.com/p/DYFJ
تصویر: AP

سوئٹزرلینڈ میں Alps کے پہاڑی سلسلے میں skiing کے لئے مشہور مقام Davos میں اس عالمی فورم میں شمولیت کے لئے دنیا بھر سے اہم سیاسی اور کاروباری شخصیات وہاں موجود ہیں۔ ان میں 27 ریاستوں کے سربراہان مملکت وحکومت اور 113 ملکوں کے وزراءکے علاوہ کئی سو ایسی سرکردہ کاروباری شخصیات بھی شامل ہیں جو اپنی کارپوریٹ حیثیت یا اپنے انتہائی اہم فیصلوں کے باعث کسی نہ کسی صورت میں عالمی معیشت پر اثرانداز ہوتی ہیں۔

داووس کے اقتصادی فورم میں شرکاءکے مابین تبادلہ خیال کی اہمیت اپنی جگہ لیکن انہی شرکاءاور ماہرین کے لئے پریشانی کی بات یہ بھی ہے کہ اس وقت عالمی معیشت کو بہت نازک صورت حال کا سامنا ہے۔ تیل اور اشیائے خوراک کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں، دنیا بھر میں حصص کی منڈیاں بے یقینی کا شکار ہیں اور ماہرین بار بار معیشی کساد بازاری کے خطرات کا ذکربھی کر رہے ہیں۔

آج تک اکثر ہوتا یہ آیا تھا کہ جب بھی داووس کا عالمی اقتصادی فورم شروع ہوتا تھاتو شرکاءکارپوریٹ شعبے کو ہونے والے بے تحاشا مالی منافع ، معیشی ترقی کی بہتر شرح اور افراط زرکی شرح بہت معمولی رہنے کی وجہ سے پیدا ہونے والے اطمینان کے ساتھ داووس آتے تھے۔ لیکن اس مرتبہ خاص کر اس فورم کے پہلے ہی روز عمومی فضا شروع سے ہی واضح طور پر مختلف رہی۔

اس کا ثبوت امسالہ فورم کے ایجنڈے میں شامل موضوعات بھی ہیں، مثلاًعالمی سطح پر کساد بازاری سے نبٹنے کے لئے پیشگی منصوبہ بندی اور امریکی معیشت، بالخصوص امریکہ میں ہاؤ‎سنگ کے شعبے کو درپیش بحران کے تناظر میں سنجیدگی سے پوچھاجانے والا یہ سوال کہ اگر امریکہ چھینک مارے، تو کیا اب بھی پوری دنیا کو زکام ہو جائے گا؟

Davos کے اس فورم کا آج قبل از دوپہر آغاز اس اجتماع کا غیر رسمی آغاز تھا کیونکہ اس کا باقاعدہ افتتاح آج بدھ کی شام امریکی وزیر خارجہ کونڈولیزا رائیس نے کیا۔

جہاں تک اس فورم میں آئندہ دنوں میں ہونے والی بحث کا تعلق ہے تو اس کا ایک اشارہ بدھ کے روز داووس میں پہلے دن کی اس افتتاحی بحث میں دیکھنے کو ملا جس میں نیویارک یونیورسٹی کے اقتصادیات کے پروفیسر Nouriel Roubini نے مندوبین کی ایک بڑی تعداد کو بتایا کہ امریکی مرکزی بینک کی طرف سے شرح سود میں اچانک بہت زیادہ کمی کے باوجود امریکہ صرف چھینک ہی نہیں مارے گا، اور اسے صرف زکام ہی نہیں ہوگا، بلکہ امریکی معیشت ایک طویل عرصے تک نمونئے کا شکار بھی رہے گی۔