1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عراق پر امریکی حملے کے ’مرکزی لابی اِسٹ‘ کی وفات

امتیاز احمد3 نومبر 2015

مشہور عراقی ریاضی دان احمد الجلبی انتقال کر گئے ہیں۔ انہیں نہ صرف عراق پر امریکی حملے کا اہم لابی اِسٹ قرار دیا جاتا ہے بلکہ امریکا کو ہتھیاروں سے متعلق غلط خفیہ اطلاعات فراہم کرنے کا الزام بھی انہی پر عائد کیا جاتا ہے۔

https://p.dw.com/p/1Gyms
Irak Ahmad Tschalabi in Baghdad
تصویر: J. Feder/AFP/Getty Images

عراق کے مشہور سیاستدان، انتہائی پر اسرار شخصیت اور ریاضی کے پروفیسر احمد الجلبی دل کا دورہ پڑنے سے اکہتر برس کی عمر میں انتقال کر گئے ہیں۔ عراقی پارلیمان کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے، ’’ملکی خزانہ کمیٹی کے اکہتر سالہ سربراہ اور قانون ساز آج صبح دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے ہیں۔‘‘ ملکی پارلیمان کی طرف سے ان کی وفات پر افسوس کا اظہار کیا گیا ہے۔

احمد الجلبی نے صدام حسین کے دور میں جلاوطنی کی زندگی اختیار کر لی تھی اور وہ صدام حسین کی مخالف ’عراقی نیشنل کانگریس‘ کے سربراہ بھی تھے۔ احمد الجلبی اس وجہ سے وائٹ ہاؤس کی پسندیدہ شخصیات میں شامل تھے کیوں کے انہوں نے امریکی حکومت کو وہ معلومات فراہم کی تھیں، جن کو اس وقت کی امریکی حکومت نے عراق پر حملے کے لیے جواز بنایا تھا۔ سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش اور ان کی انتظامیہ نے سن دو ہزار تین میں عراق پر حملہ کر دیا تھا۔ اس حملے کے بعد وائٹ ہاؤس کی طرف سے الجلبی کی حمایت میں بھی کمی آ گئی تھی کیوں کہ وہ تمام معلومات غلط ثابت ہوئی تھیں، جنہیں دنیا کے سامنے پیش کیا گیا تھا۔ عراق کے سابق حکمران صدام حسین کے نہ تو القاعدہ سے تعلقات ثابت ہو سکے تھے اور نہ ہی عراق سے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار برآمد ہوئے تھے، جیسا کہ اس بارے میں عوامی سطح پر پروپیگنڈا کیا گیا تھا۔

عراق پر امریکی حملے کے بعد اس عراقی سیاستدان پر ایران کو معلومات فراہم کرنے کا الزام بھی عائد کیا جاتا ہے۔ ایران میں ان کو اس وجہ سے بھی خوش آمدید کہا گیا تھا کیوں کہ اس وقت یہ امریکی حمایت کھو چکے تھے۔

اردن کی ایک عدالت نے 1992ء میں الجلبی کو مالی دھوکہ دہی کے الزام میں قید کی سزا بھی سنائی گئی تھی۔ ان پر الزام تھا کہ وہ ایک بینک کے خاتمے کی وجہ بنے ہیں۔ الجلبی انیس سو چوالیس میں بغداد کے ایک امیر گھرانے میں پیدا ہوئے تھے اور انیس سو چھپن میں ملک سے باہر چلے گئے تھے۔ انہوں نے زندگی کا زیادہ تر حصہ برطانیہ اور امریکا میں گزارا، جہاں انہوں نے ریاضی کے مضمون میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی حاصل کی۔

احمد الجلبی نے نوّے کی دہائی میں عراق کے شمال میں کرد بغاوت کو بھی منظم کیا تھا لیکن اس بغاوت میں سینکڑوں افراد مارے گئے تھے جبکہ الجلبی خود فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ اس کے بعد وہ عراق میں امریکی حملے کے بعد واپس آئے تھے۔

امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کی انتظامیہ کے اہم منصوبہ سازوں کے خیال میں صدام حسین کے خاتمے کے بعد الجلبی اور ان کی جماعت عبوری حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے لیکن ان کی جماعت عراق میں غیر معروف تھی اور انہیں کچھ زیادہ پسند بھی نہیں کیا جاتا تھا۔

الجلبی امریکی حملے کے بعد عراقی گورننگ کونسل کے غیر مستقل صدر بھی بنے اور نائب وزیراعظم کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ عارضی طور پر تیل کی پیداوار کے معاملات بھی ان کے ہاتھ میں آئے لیکن وہ کبھی بھی اس عہدے تک نہ پہنچ سکے یہ وہ بلندیاں تھیں جن کے خواب انہوں نے دیکھ رکھے تھے۔