1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

21 ويں صدی:عالمی سياسی میدان اورنئے اقتصادی کھلاڑی

14 اپریل 2010

عالمی اقتصاديت کے افق پر جو نئے ممالک ابھررہے ہنں، اُن ميں چين،بھارت،روس اور برازيل کو خاص طور پر اہميت دی جارہی ہے اور اس گروپ کو BRIC کا نام ديا گيا ہے۔

https://p.dw.com/p/MwGF
تصویر: AP

دنيا ميں ابھرتے ہوئے صنعتی ممالک، پھيلتی اور بڑھتی ہوئی قومی معيشتوں اور نئی نئی منڈيوں کی وجہ سے اکيسويں صدی کا عالمی سياسی اور اقتصادی منظر بہت کچھ تبديل ہوتا نظر آتا ہے۔ عالمی اقتصاديت کے افق پر جو نئے ممالک ابھررہے ہیں، اُن ميں چين، بھارت، روس اور برازيل کو خاص طور پر اہميت دی جارہی ہے اور اقتصادی اور سياسی ماہرین کی نظريں اُن پر لگی ہوئی ہيں کہ اُن کے حالات کس رخ پر جارہے ہيں۔ان چار ممالک کو ايک گروپ کی شکل ميں ديکھا جارہا ہے اور اس گروپ کو BRIC کے نام سے پکارا جاتا ہے۔

LOGO BRIC
برک ملکوں کے گروپ کا لوگو

پچھلے سال کے وسط ميں BRIC گروپ کے چار ممالک کا روس ميں اجلاس ہوا تھا اور روسی صدر ميدويديف نے اس مناسبت سے اس شہر کو عالمی سياست کا مرکز کہا تھا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ يہ گروپ اپنی اہميت کا بخوبی احساس رکھتا ہے۔ حاليہ عرصے ميں يہ بھی ديکھنے ميں آرہا ہے کہ جب جی۔20 کی سربراہی کانفرنس ہوتی ہے جس ميں دنيا کو اقتصادی بحران سے نجات دلانے پر غور کيا جاتا ہے، توان چاروں ممالک کو بھی اس کانفرنس ميں شريک کيا جاتا ہے۔ اس سے يہ بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ ابھرتے ہوئے صنعتی ملکوں کے بغير ايک عرصے سے کچھھ بھی کرنا ممکن نہيں رہا ہے۔ يہ کوئی تعجب کی بات بھی نہيں ہے۔ چار ملکوں کے اس گروپ کی اقتصادی کارکردگی، مجموعی عالمی اقتصادی کارکردگی کا 15 فيصد ہے۔ عالمی تجارت ميں اُن کا حصہ 13 فيصد ہے، اور اُن کے زرمبادلہ کے ذخائر 2.8 بلين امريکی ڈالرز ہيں جو عالمی ذخائر کا 40 فيصد ہيں۔ايک جرمن ماہر اقتصاديات نوربرٹ والٹر کہتے ہيں کہ اگلے 5 سے 7 سالوں کے اندر تجارت اور سرمايہ کاری کے فيصلوں ميں ان چار ملکوں کے وزن ميں مزيد اضافہ ہوگا۔ آئندہ برسوں کے دوران امريکہ اور يورپی ممالک اپنی غلطيوں کو درست کرنے ميں لگے رہيں گے جو کہ بہت پہلے ہی ہوجانا چاہئے تھا۔ اُنہيں پہلے اپنے اقتصادی ڈھانچوں کودوبارہ ٹھيک کرنا اور بہت زيادہ بڑھ جانے والے رياستی قرضوں ميں کمی کرنا ہوگی۔

تاہم نوربرٹ والٹر کے خیال ميں ان چار ملکوں کا ايک گروپ کی شکل ميں اکٹھا ہونا کچھ اتنا موزوں نہيں ہے۔ اُنہوں نے کہنا ہے کہ اُن کے خيال ميں صرف بھارت اور چين ہی کا جوڑ ہو سکتا ہے۔ اُن کی اقتصادی فعاليت بلاشبہ بہت زيادہ ہے اورپچھلے عرصے ميں کچھ کمی کے بعد اب پھر بڑھ گئی ہے۔ اگلے 5 برسوں ميں ان ملکوں کی اقتصادی ترقی کی سالانہ شرح نمو 7 فيصد رہے گی اور اس طرح وہ عالمی معيشت کی گاڑی کھينچنے والے ہوں گے۔

Infografik Wirtschaftswachstum 2009/2010 BRIC Staaten im Vergleich USA und Euro Zone
برک ملکوں کا اقتصادی گراف

ليکن روس کی حالت اس سے مختلف ہے۔ پچھلے سال اُس کی اقتصادی کارکردگی ميں اُس سے قبل کے سال کے مقابلے ميں 8 فيصد کمی ہوئی جو کہ 15 برسوں ميں سب سے بڑی کمی تھی۔

برازيل کی صورتحال بھی اتنی اچھی نہيں ہے۔ نوربرٹ والٹر کہتے ہیں کہ برازيل، چين يا بھارت کی طرح سے اقتصادی نمو کے قابل ہو سکتا تھا ليکن وہ اپنے معيشی ڈھانچے کو تيار کرنے ميں کامياب نہيں ہو سکا ہے۔ وہ، اراضی کی ملکيت کے جاگيردارانہ نظام کو بھی تبديل نہيں کرسکا ہےاور اپنے اقتصادی ڈھانچے کو مستحکم بنانے سے بھی قاصر ہے۔ اس وجہ سے برازيل اپنی صلاحيت کا زيادہ سے زيادہ صرف دوتہائی حصہ استعمال کرپا رہا ہے۔ اور اس ميں باقاعدہ تبديلی کے بھی کوئی آثار نظر نہيں آتے۔

تاہم بہت سے ماہرين کی يہ پيشگوئی صحيح ثابت ہوتی نظر آتی ہے کہ حاليہ مالی اور اقتصادی بحران نے دراصل صنعتی ممالک ہی کو اپنی لپيٹ ميں ليا تھا۔ اس کے برعکس ابھرتے ہوئے صنعتی ملکوں نے حيرت انگيز قوت مدافعت کا مظاہرہ کيا اور اب وہ عالمی اقتصادی نمو کی گاڑی کو کھننچنے والا انجن بن سکتے ہيں۔

رپورٹ : شہاب احمد صدیقی

ادارت: عابد حسین