1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

125 ویں سالگرہ پر چپلن کی یادیں

امجد علی16 اپریل 2014

اپنے کیریئر کے آغاز پر وہ صرف خاموش فلموں کے ایک اداکار تھے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ایک ایسے لیجنڈ بن گئے کہ جن کے بغیر فلم کی تاریخ ادھوری ہے۔ سولہ اپریل کو چارلی چپلن کا 125 واں یومِ پیدائش منایا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/1BiS5
تصویر: AP

مارچ 1978ء میں سوئٹزرلینڈ میں جنیوا لیک کے مقام پر اغوا کی ایک واردات عمل میں آئی۔ اغواکار دو بیروزگار تھے، جنہوں نے غالباً دنیا کی مشہور ترین لاش چُرا لی تھی، جسے واپَس کرنے کے بدلے اُنہوں نے چھ لاکھ سوئس فرانک طلب کیے تھے۔ یہ لاش چارلی چپلن کی تھی، جو اس سے دو مہینے پہلے وفات پا گئے تھے۔ یہ صورتِ حال اتنی مضحکہ خیز تھی کہ اُن کی کسی فلم کا حصہ معلوم ہوتی تھی۔

سولہ اپریل 1889ء کو ایک انتہائی غریب گھرانے میں پیدا ہونے والے چارلی چپلن کا اصل نام چارلس سپنسر چپلن تھا۔ ماں نفسیاتی مریضہ تھی جبکہ باپ کثرتِ شراب نوشی کا شکار رہتا تھا لیکن اُن کے پاس ایک چھوٹا سا تھیٹر تھا، جہاں ننھے چارلی نے پانچ سال کی عمر میں پہلی بار اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے۔

چارلی چپلن اپنی 1921ء کی مشہور خاموش فلم ’دی کِڈ‘ میں ساتھی اداکار جیکی کُوگن کے ساتھ
چارلی چپلن اپنی 1921ء کی مشہور خاموش فلم ’دی کِڈ‘ میں ساتھی اداکار جیکی کُوگن کے ساتھتصویر: AP

اُس زمانے میں ہالی وُڈ اگرچہ لاس اینجلس کے قریب محض گرد سے اٹا ہوا ایک مقام تھا لیکن وہاں فلمیں پھر بھی بن رہی تھیں۔ یہ اور بات ہے کہ ان کا دورانیہ محض چند منٹ ہوتا تھا۔ ان فلموں میں اداکاری کے لیے چپلن بھی وہاں پہنچ گئے اور اپنی دوسری ہی فلم میں وہ ایک ایسے آوارہ گرد کے کردار میں نظر آئے، جس نے اپنے سائز سے کہیں بڑی پتلون پہن رکھی تھی، مڑے تڑے جوتے پہنے ہوئے تھے، ہاتھ میں مخصوص چھڑی اور چہرے پر خاص طرح کی مختصر مونچھیں تھیں۔ اس طرح چارلی چپلن وجود میں آ چکا تھا۔

چپلن نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ ’سیر کی چھڑی انسان کے وقار کی، مونچھ خود نمائی کی جبکہ مڑے تڑے جوتے پریشانیوں کی علامت ہیں‘۔ اُس دور میں چپلن کو ایک ہفتے کے 175 ڈالر ملا کرتے تھے۔ جلد ہی اُنہوں نے ہدایات دینے کا کام بھی خود ہی سنبھال لیا ا ور یوں 1915ء میں ’دی ٹریمپ‘ کے نام سے اُن کی پہلی شاہکار فلم تخلیق ہوئی، جس نے بے مثال کامیابی حاصل کی۔

چارلی چپلن نے بجا طور پر کہا تھا کہ ’مجھے لوگ دُنیا کے اُن کونوں میں بھی جانتے ہیں، جہاں لوگوں نے کبھی یسوع مسیح کا بھی نام نہیں سنا‘۔ بڑے بڑے سربراہانِ مملکت و حکومت بھی چپلن سے ملنا اپنے لیے ایک اعزاز کی بات سمجھنے لگے اور یوں چپلن ہالی وُڈ کے پہلے عالمی شہرت یاقتہ سٹار بن کر ابھرے۔ نیویارک کا ایک سینما گھر مسلسل نو سال تک اُن کی فلمیں چلاتا رہا، اس دوران صرف ایک ہی بار وقفہ آیا، جب اس سینما گھر کو آگ لگ گئی تھی۔

چارلی چپلن بائیس ستمبر 1931ء کی اس تصویر میں لندن میں مہاتما گاندھی کے ساتھ نظر آ رہے ہیں
چارلی چپلن بائیس ستمبر 1931ء کی اس تصویر میں لندن میں مہاتما گاندھی کے ساتھ نظر آ رہے ہیںتصویر: AP

اپنی فلموں کی کامیابی کا نسخہ بتاتے ہوئے چپلن نے ایک بار بتایا تھا:’’میری ساری فلموں کی بنیاد ایک ہی خیال پر ہوتی ہے یعنی پہلے خود کو مشکلات میں مبتلا کرنا تاکہ بعد میں خود کو ایک شریف آدمی کے طور پر اُن مشکلات سے نکلنے کی کوشش کرتا دکھا سکوں۔‘‘ وہ اپنی فلموں میں خود کو ایک ایسے چھوٹے سے، عام سے اور خوش اخلاق انسان کے طور پر پیش کرتے تھے، جو تمام تر مشکلات کے باوجود ہار نہیں مانتا تھا اور بالآخر اپنے مسائل حل کرنے میں کامیاب ہو جاتا تھا۔

اپنی فلموں ’دی کِڈ‘، ’اے ڈاگز لائف‘ اور ’دی سرکس‘ کے ساتھ اُنہوں نے یکے بعد دیگرے تین بے انتہا کامیاب فلمیں دیں، جنہیں بہت سے نقاد آج بھی فلمی تاریخ کی کامیاب ترین فلمیں مانتے ہیں۔ یہ فلمیں ابھی خاموش فلموں کے دور کی فلمیں تھیں۔ پھر اُنہوں نے ’دی گریٹ ڈکٹیٹر‘ کی شکل میں پہلی بولتی فلم بنائی اور فلم بینوں اور نقادوں دونوں کی جانب سے زبردست داد پائی۔ اِس فلم میں اُنہوں نے نازی آمر اڈولف ہٹلر کی نقل اُتاری تھی۔

USA Film Auktion Bowler und Stock von Charlie Chaplin
2012ء میں لاس اینجلس میں ہونے والی ایک نیلامی میں وہ ہیٹ اور وہ چھڑی پچاس ہزار ڈالر میں فروخت ہوئے، جو چارلی چپلن نے اپنی مشہور فلم ’ماڈرن ٹائمز‘ میں پہنے تھےتصویر: Getty Images

تب ایک ایسا دور آیا کہ اپنی فلموں کے ہدایتکار بھی وہ خود ہی ہوا کرتے تھے اور اداکار، اسکرپٹ رائٹر، فلمساز، حتیٰ کہ موسیقار بھی۔ 1952ء تک اُنہوں نے امریکا میں مزید دو فلمیں بنائیں لیکن تب تک امریکا میں اُنہیں شک و شبے کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا تھا۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ سرد جنگ کے دور میں اُنہوں نے کمیونسٹوں کا بائیکاٹ کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ وہ اپنے سے بہت ہی کم عمر عورتوں کی جانب بہت زیادہ رغبت رکھتے تھے۔ پہلی دونوں شادیاں اُنہوں نے جن خواتین سے کیں، اُن کی عمریں سولہ سولہ سال تھیں اور یہ شادیاں اسکینڈلز کی زَد میں آنے سے بچنے کے لیے مجبوری میں کی گئی تھیں۔

اپنی چوتھی اور آخری شادی کے وقت خود اُن کی اپنی عمر 54 برس تھی جبکہ اُن کی دلہن اور نوبل انعام یافتہ ادیب یوجین او نیل کی بیٹی اُونا کی عمر مشکل سے اٹھارہ برس تھی۔

چپلن ایک بار یورپ کے دورے پر آئے تو ایف بی آئی نے اُنہیں واپس امریکا جانے ہی نہیں دیا۔ اس سلوک کا بدلہ چپلن نے فلم ’اے کنگ اِن نیویارک‘ بنا کر لیا، جس میں وہ ایک ایسے سابق یورپی بادشاہ بنے، جسے امریکی سینٹ کی دعوت پر واشنگٹن بلایا جاتا ہے۔ اس فلم میں چپلن آگ بجھانے والے پائپ میں الجھ جاتے ہیں اور پانی کی تیز دھار پھینک کر تمام سینیٹرز کو نکال باہر پھینکتے ہیں۔ 1957ء میں بننے والی یہ فلم امریکا میں بھی دکھائی گئی تھی لیکن کہیں 1973ء میں۔

یہ وہ دور تھا، جب چپلن کو اپنی زندگی میں دوسری مرتبہ آسکر کا اعزازی ایوارڈ دیا گیا۔ تب وہ اتنے عمر رسیدہ اور کمزور ہو چکے تھے کہ ٹھیک طرح سے چل بھی نہیں پاتے تھے۔ اپنی عمر کے آخری ایام اُنہوں نے سوئٹزرلینڈ میں جنیوا لیک کے کنارے گزارے۔ 1977ء میں کرسمس کے موقع پر پچیس دسمبر کو اُن کے انتقال کی خبر نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس واقعے کے پینتیس برس بعد لاس اینجلس میں ہونے والی ایک نیلامی میں وہ ہیٹ اور وہ چھڑی پچاس ہزار ڈالر میں فروخت ہوئے، جو چارلی چپلن نے اپنی مشہور فلم ’ماڈرن ٹائمز‘ میں پہنے تھے۔