ہم جنس پرستوں کی شادی، چینی معاشرہ بھی متاثر ہو سکتا ہے
25 مئی 2017تائیوان کی دستوری عدالت کے ہم جنس پرستوں کی شادی کے حق میں دیے گئے فیصلے کے اثرات کئی ملکوں پر مرتب ہو سکتے ہیں۔ مرکزی چین کے علاوہ تھائی لینڈ اور مشرقِ بعید کے ممالک خاص طور پر متاثر ہو سکتے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ چین میں ہم جنس پرستوں کے درمیان شادی کو ابھی قانونی حیثیت ملنے میں دیر ہے، لیکن اُس سے قبل ہی تائیوان کے اِس فیصلے کے اثرات چینی معاشرے میں سرایت کرنا شروع ہو جائیں گے۔
چین میں سن 2001 تک ہم جنسی پرستی کو ایک ذہنی بیماری سے تعبیر کیا جاتا رہا ہے لیکن اس فعل میں ملوث ہونا کوئی قانونی جرم نہیں ہے۔ چین کے کئی شہروں میں بے شمار ہم جنس پرست موجود ہیں لیکن انہیں خاندانی اور معاشرتی دباؤ کا سامنا رہتا ہے۔ ایسیے مردوں اور خواتین کو شادی کے لیے مجبور کیا جاتا ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ تائیوانی دستوری عدالت کا فیصلہ سارے خطے میں اس ملک کی آزادانہ سوچ کا عکاس قرار دیا جا سکتا ہے اور ایسی پالیسیوں نے مشرقِ بعید کے ملکوں میں روشن خیالی کی کئی سمتوں کا تعین کر رکھا ہے۔ ایسا خیال کیا جا رہا ہے کہ تھائی لینڈ میں ہم جنس پرستوں کے سرگرم کارکن عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا سکتے ہیں۔ تھائی لینڈ کو جنوب مشرقی ایشیا میں ہم جنس پرستوں اور ہیجڑوں کا سب سے بڑا وطن قرار دیا جاتا ہے۔
چینی میڈیا نے بھی تائیوان کی دستوری عدالتی فیصلے کو کوئی اہمیت نہیں دی ہے۔ اس فیصلے کے خلاف تائیوانی عوام نے احتجاج بھی کیا تاہم چینی ذرائع ابلاغ نے اس کو زیادہ اہمیت دی۔ یہ امر اہم ہے کہ چین کی حکومت تائیوان کو ایک خود سر صوبہ قرار دیتی ہے اور چین کی خواہش ہے کہ اسے ملک کے مرکزی علاقے کا حصہ ہونا چاہیے۔ کئی ماہرین کا خیال ہے کہ جلد یا بدیر بیجنگ حکومت ہم جنس پرستوں کو آپس میں شادیاں کرنے کی اجازت دے سکتی ہے۔