گزشتہ برس موسم گرما کے دوران جب مشرق وسطیٰ اور دیگر ایشائی و افریقی ممالک کے آنے والے تارکین وطن نے یورپ کا رخ کیا تو جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے ان کے لیے سرحدیں کھولنے کا اعلان کیا تھا۔
کیمپ خالی کرو اور ترکی جانے کی تیاری کرو
یورپ میں پناہ کے متلاشیوں میں اڑتالیس ہزار پاکستانی بھی
پچھلے سال جب تارکین وطن روزانہ ہزاروں کی تعداد میں جرمنی کے شہر میونخ پہنچ رہے تھے تو میرکل نے ’ہم یہ کر سکتے ہیں‘ کا اعلان کر کے ملک میں مہاجرین کے لیے خوش آمدیدی رویے کو فروغ دیا تھا۔
ایک ملین سے زائد پناہ گزینوں کی جرمنی آمد اور خاص طور پر سال نو کے موقع پر کلون شہر میں پیش آنے والے ناخوشگوار واقعات کے بعد میرکل کی مقبولیت میں تیزی سے کمی دیکھی گئی تھی۔ تاہم مخالفین کے علاوہ میرکل کی اپنی اتحادی جماعتوں کی جانب سے بھی مسلسل دباؤ کے باوجود میرکل نے اپنی پالیسی تبدیل نہیں کی تھی۔
لیکن اب صورت حال تبدیل ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ میرکل کی مہاجرین کو خوش آمدید کہنے کی پالیسی کے ایک بڑے مخالف ہورسٹ زیہوفر کا جو کہ وفاقی جرمن ریاست باویریا کے وزیر اعلیٰ اور میرکل کی اتحادی جماعت سی ایس یو کے سربراہ بھی ہیں، کہنا ہے کہ میرکل نے آخر کار اپنی پالیسی تبدیل کر لی ہے۔
جرمن اخبار ’بِلڈ اَم زونٹاگ‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں زیہوفر کا کہنا تھا، ’’اگرچہ جرمنی کی وفاقی حکومت اس بات کو تسلیم نہیں کر رہی لیکن حکومت نے مہاجرین کے بارے میں اپنی پالیسی مکمل طور پر تبدیل کر دی ہے۔‘‘
سی ایس یو کے سربرا کا مزید کہنا تھا، ’’مہاجرین کو غیر مشروط طور پر خوش آمدید کہنے کے کلچر سے بتدریج پیچھے ہٹا گیا ہے۔ یونان اور مقدونیا کی سرحد پر پھنسے مہاجرین کی صورت حال دیکھنے کے باوجود اب کوئی جرمن سیاست دان یہ نہیں کہہ رہا کہ سرحدیں کھلی ہیں، سب کو جرمنی آنے دو۔‘‘
جرمنی کی گرین پارٹی سے تعلق رکھنے والے سیاست دان انٹون ہوفرائٹر نے بھی میرکل پر الزام لگایا ہے کہ انہوں نے اپنی مہاجر دوست پالیسی بدل لی ہے۔ ایک مقامی اخبار سے بات چیت کرتے ہوئے ہوفرائٹر کا کہنا تھا کہ جرمن چانسلر نے ترکی اور یورپی یونین کے مابین طے پانے والے معاہدے کی حمایت کر کے اصل میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر پناہ دینے کی پالیسی چھوڑ دی ہے۔
رضاکارانہ طور پر واپس جاؤ، بائیس سو یورو ملیں گے
-
پاکستانی تارکین وطن کے کرچی کرچی خواب
بہتر مستقبل کے خواب کی تعبیر، بیت الخلا کی صفائی
جو ہزاروں پاکستانی تارکین وطن اپنے گھروں سے نکلے، ان کی منزل جرمنی و مغربی یورپی ممالک، اور خواہش ایک بہتر زندگی کا حصول تھی۔ شاید کسی نے سوچا بھی نہ ہو گا کہ خطرناک پہاڑی اور سمندری راستوں پر زندگی داؤ پر لگانے کے بعد انہیں ایتھنز میں پناہ گزینوں کے ایک کیمپ میں بیت الخلا صاف کرنا پڑیں گے۔
-
پاکستانی تارکین وطن کے کرچی کرچی خواب
ایجنٹوں کے وعدے اور حقیقت
زیادہ تر پاکستانی صوبہ پنجاب سے آنے والے تارکین وطن کو اچھے مستقبل کے خواب انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے ایجنٹوں نے دکھائے تھے۔ جرمنی تک پہنچانے کے ابتدائی اخراجات پانچ لاکھ فی کس بتائے گئے تھے اور تقریباﹰ ہر کسی سے یہ پوری رقم پیشگی وصول کی گئی تھی۔ جب یہ پاکستانی شہری یونان پہنچے تو مزید سفر کے تمام راستے بند ہو چکے تھے۔ اسی وقت ایجنٹوں کے تمام وعدے جھوٹے اور محض سبز باغ ثابت ہوئے۔
-
پاکستانی تارکین وطن کے کرچی کرچی خواب
پاکستانیوں سے امتیازی سلوک کی شکایت
شام اور دیگر جنگ زدہ ممالک سے آنے والے تارکین وطن کو بلقان کی ریاستوں سے گزر کر جرمنی اور دیگر مغربی یورپی ممالک جانے کی اجازت ہے۔ یورپی حکومتوں کے خیال میں زیادہ تر پاکستانی شہری صرف اقتصادی وجوہات کی بنا پر ترک وطن کرتے ہیں۔ اسی لیے انہیں یورپ میں پناہ دیے جانے کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔ لیکن اکثر پاکستانیوں کو شکایت ہے کہ یونان میں حکام ان سے نامناسب اور امتیازی سلوک روا رکھے ہوئے ہیں۔
-
پاکستانی تارکین وطن کے کرچی کرچی خواب
کیمپ میں رہنا ہے تو صفائی تم ہی کرو گے!
ایسے درجنوں پاکستانی تارکین وطن کا کہنا ہے کہ یونانی حکام نے مہاجر کیمپوں میں صفائی کا کام صرف انہی کو سونپ رکھا ہے۔ ان سے کہا گیا ہے کہ پاکستانی شہریوں کو بالعموم مہاجر کیمپوں میں رکھنے کی اجازت نہیں ہے تاہم انہیں وہاں عارضی قیام کی اجازت صرف اس شرط پر دی گئی ہے کہ وہاں صفائی کا کام صرف وہی کریں گے۔
-
پاکستانی تارکین وطن کے کرچی کرچی خواب
پردیس میں تنہائی، مایوسی اور بیماری
سینکڑوں پاکستانی تارکین وطن اپنے یونان سے آگے کے سفر کے بارے میں قطعی مایوس ہو چکے ہیں اور واپس اپنے وطن جانا چاہتے ہیں۔ ان میں سے متعدد مختلف ذہنی اور جسمانی بیماریوں میں بھی مبتلا ہو چکے ہیں۔ ایک یونانی نیوز ویب سائٹ کے مطابق گزشتہ ہفتے دو پاکستانی پناہ گزینوں نے خودکشی کی کوشش بھی کی تھی۔
-
پاکستانی تارکین وطن کے کرچی کرچی خواب
کم اور نامناسب خوراک کا نتیجہ
یونان میں پناہ کے متلاشی زیادہ تر پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ مہاجر کیمپوں میں انہیں ملنے والی خوراک بہت کم ہوتی ہے اور اس کا معیار بھی ناقص ۔ ایسے کئی تارکین وطن نے بتایا کہ انہیں زندہ رہنے کے لیے روزانہ صرف ایک وقت کا کھانا ہی میسر ہوتا ہے۔ ان حالات میں اکثر افراد ذہنی پریشانیوں کے ساتھ ساتھ جسمانی طور پر لاغر اور بیماریوں کا شکار ہو چکے ہیں۔
-
پاکستانی تارکین وطن کے کرچی کرچی خواب
وطن واپسی کے لیے بھی طویل انتظار
بہت سے مایوس پاکستانی پناہ گزینوں کے لیے سب سے اذیت ناک مرحلہ یہ ہے کہ وہ اپنے پاس کوئی بھی سفری دستاویزات نہ ہونے کے باعث اب فوراﹰ وطن واپس بھی نہیں جا سکتے۔ ان کے بقول ایتھنز میں پاکستانی سفارت خانے کی جانب سے لازمی جانچ پڑتال کے بعد انہیں عبوری سفری دستاویزات جاری کیے جانے کا عمل انتہائی طویل اور صبر آزما ہے۔
-
پاکستانی تارکین وطن کے کرچی کرچی خواب
غریب الوطنی میں بچوں کی یاد
پاکستان کے ضلع گجرات سے تعلق رکھنے والا اکتالیس سالہ سجاد شاہ بھی اب واپس وطن لوٹنا چاہتا ہے۔ تین بچوں کے والد سجاد شاہ کے مطابق اسے اپنے اہل خانہ سے جدا ہوئے کئی مہینے ہو چکے ہیں اور آج اس کے مالی مسائل پہلے سے شدید تر ہیں۔ سجاد کے بقول مہاجر کیمپوں میں کھیلتے بچے دیکھ کر اسے اپنے بچے بہت یاد آتے ہیں اور اسی لیے اب وہ جلد از جلد واپس گھر جانا چاہتا ہے۔
-
پاکستانی تارکین وطن کے کرچی کرچی خواب
اجتماعی رہائش گاہ محض ایک خیمہ
دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے مہاجرین اور پناہ گزینوں کو یونانی حکام نے پختہ عمارات میں رہائش فراہم کی ہے جب کہ پاکستانیوں کو زیادہ تر عارضی قیام گاہوں کے طور پر زیر استعمال اجتماعی خیموں میں رکھا گیا ہے۔ یہ صورت حال ان کے لیے اس وجہ سے بھی پریشان کن ہے کہ وہ یورپ کی سخت سردیوں کے عادی نہیں ہیں۔
-
پاکستانی تارکین وطن کے کرچی کرچی خواب
جب انتظار کے علاوہ کچھ نہ کیا جا سکے
یونان میں ان پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ وہ پاکستانی سفارت خانے کو اپنے لیے سفری دستاویزات کے اجراء کی درخواستیں دے چکے ہیں اور کئی مہینے گزر جانے کے بعد بھی اب تک انتظار ہی کر رہے ہیں۔ ایسے ایک پاکستانی شہری کے مطابق چند افراد نے بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت سے بھی اپنی وطن واپسی میں مدد کی درخواست کی لیکن جواب ملا کہ واپسی کے لیے درکار سفری دستاویزات صرف پاکستانی سفارتی مراکز ہی جاری کر سکتے ہیں
-
پاکستانی تارکین وطن کے کرچی کرچی خواب
پناہ نہیں، بس گھر جانے دو
یونان میں بہت سے پاکستانی تارکین وطن نے اسلام آباد حکومت سے درخواست کی ہے کہ ان کی جلد از جلد وطن واپسی کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔ ان افراد کا دعویٰ ہے کہ ایتھنز میں پاکستانی سفارت خانہ ’بار بار کے وعدوں کے باوجود کوئی مناسب مدد نہیں کر رہا‘۔ احسان نامی ایک پاکستانی تارک وطن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’نہ ہم واپس جا سکتے ہیں اور نہ آگے، پس پچھتاوا ہے اور یہاں ٹائلٹس کی صفائی کا کام۔‘‘
مصنف: شمشیر حیدر