نئے مجوزہ جرمن قوانين کے مطابق جرمنی ميں سياسی پناہ حاصل کرنے والے تارکين وطن اگر زبان سيکھنے، ملازمت تلاش کرنے اور معاشرے ميں ضم ہونے کے ليے مناسب اقدامات نہيں کرتے، تو انہيں فراہم کی جانے والی سہوليات ميں کمی کی جا سکتی ہے۔ چانسلر انگيلا ميرکل کی سياسی پارٹی کرسچن ڈيموکريٹک يونين (CDU) اور مخلوط سوشل ڈيموکريٹک پارٹی (SPD) کے مابين يہ اتفاق رائے بدھ اور جمعرات کی درميانی شب قريب سات گھنٹے طويل بحث و مباحثے کے بعد ہوا۔ برلن حکومت کئی ماہ سے ان قوانين کو حتمی شکل دينے کی کوششوں ميں ہے۔ واضح رہے کہ جمعرات کو طے کردہ قوانين ميں انسداد دہشت گردی کے ليے بھی مجوزہ اقدامات شامل ہيں۔
انضمام کے حوالے سے طے پانے والے مجوزہ قوانين کے تحت جرمنی پہنچنے والے پناہ گزينوں کے ليے متعدد تربيتی پروگراموں کا انتظام کيا جائے گا تاہم ان سے فائدہ نہ اٹھانے والوں کی سياسی پناہ منسوخ بھی کی جا سکتی ہے۔ چانسلر ميرکل کے بقول جرمن زبان سکھانے کے علاوہ مہاجرين کو ايسے کورسز بھی کرائے جائيں گے جن کی مدد سے وہ جرمنی کی روزگار کی منڈی ميں ملازمت کے اہل ہو سکيں۔ نئے مجوزہ قوانين کے تحت وفاقی فنڈز کی مدد سے پناہ گزينوں کے ليے ملازمت کے تقريباً ايک لاکھ مواقع پيدا کيے جائيں گے۔ ملک بدری کے ليے مستحق قرار ديے جانے والے تارکين وطن کی ملک بدری پر اس وقت تک عملدرآمد نہيں کيا جائے گا، جب تک ان کا تربيتی پروگرام ختم نہيں ہو جاتا۔ اس کے علاوہ، جو مہاجرين حکام کی جانب سے مہيا کردہ رہائش ترک کريں گے، انہيں نتائج بھگتنا پڑيں گے تاہم يہ واضح نہيں کہ يہ نتائج کيا ہوں گے۔ ميرکل نے کہا کہ نئے قوانين ميں ’ہر کسی کے ليے مواقع بھی ہيں اور ذمہ دارياں بھی‘۔ مجوزہ قوانين کی ملکی کابينہ سے منظوری چوبيس مئی کو ممکن ہے۔
ميرکل نے کہا کہ نئے قوانين ميں ’ہر کسی کے ليے مواقع بھی ہيں اور ذمہ دارياں بھی‘۔
انگيلا ميرکل نے اس موقع پر دارالحکومت برلن ميں کہا کہ يورپ کو درپيش مہاجرين کے اس تاريخی بحران ميں جرمنی کو دو چيلنجز کا سامنا ہے۔ پہلا چيلنج يورپی اتحاديوں کے ساتھ مل کر تارکين وطن کی آمد کو منظم بنانا ہے اور اس سلسلے ميں پيش رفت واضح ہے۔ ذرائع ابلاغ سے بات چيت کرتے ہوئے ميرکل نے کہا کہ دوسرا چيلنج يہاں پہنچنے والے پناہ گزينوں کا اندراج اور پھر ان کا کامياب انضمام ہے۔ انہوں نے کہا، ’’انضمام کے حوالے سے ہمارے پاس قومی سطح کا باقاعدہ قانون ہو گا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد جرمنی ميں ايسا پہلی مرتبہ ہو رہا ہے اور يہ ايک اہم اقدام ہے۔‘‘
يہ امر اہم ہے کہ سن 1960 کی دہائی کے آغاز ميں جرمنی نے ترک شہريوں کو ’گيسٹ ورکرز‘ يعنی مہمان ملازمين کے طور پر بلايا تھا۔ اس اقدام کا مقصد معاشی ترقی تھا۔ تاہم حکام ان ہزارہا تارکين وطن اور پھر ان کی آئندہ نسلوں کو انضمام يا شہريت کی جانب درست راہ دينے ميں ناکام رہے تھے۔
-
پاکستانی ہی سب سے پہلے ملک بدر کيوں؟
ليسبوس پر ’غير قانونی‘ قيام
مقامی ميئر کے پريس آفيسر ماريو آندروئٹس کے مطابق مہاجرين نے وہاں جو کيمپ لگا رکھا ہے، وہ مکمل طور پر غير قانونی ہے۔ ان کے بقول وہ اس مسئلے کا پر امن انداز ميں حل نکالنے کی کوشش ميں ہيں تاہم اگر مہاجرين نے کيمپ نہيں چھوڑا تو پوليس کو طلب کيا جا سکتا ہے۔ يہ ليسبوس کے اس ايک کيمپ کی بات کر رہے ہيں، جہاں کئی پاکستانی موجود ہيں۔
-
پاکستانی ہی سب سے پہلے ملک بدر کيوں؟
سمندر سے بچائے جانے والے
مائيٹيلين کی بندرگاہ پر يونانی کوسٹ گارڈز کی جانب سے حراست ميں ليے جانے والے تارکين وطن کا ايک گروپ پوليس کی ايک بس پر انتظار کر رہا ہے۔ يہ تصوير رواں ہفتے اس وقت لی گئی تھی، جب يونان نے سياسی پناہ کے ليے غير مستحق سمجھے جانے والوں کی ترکی ملک بدری شروع کردی تھی۔
-
پاکستانی ہی سب سے پہلے ملک بدر کيوں؟
واپسی کا طويل سفر، مستقبل غير واضح
آٹھ اپريل کے روز 202 تارکين وطن کو ملک بدر کيا گيا۔ اس گروپ ميں ايک سو تيس پاکستانی شامل تھے۔ دوسرے نمبر پر افغان شہری تھے۔ اس کے علاوہ چند بنگلہ ديشی، کانگو کے کچھ شہری، چند ايک بھارتی اور سری لنکن تارکين وطن کو بھی ملک بدر کيا گيا۔
-
پاکستانی ہی سب سے پہلے ملک بدر کيوں؟
بھوک ہڑتال
ليسبوس پر قائم ايک حراستی مرکز موريا کے مہاجر کيمپ ميں پاکستانی تارکين وطن بھوک ہڑتال پر تھے۔ جنگی حالات سے فرار ہونے والا ايک نوجوان بلوچی لڑکا احتجاج کرتے ہوئے ایک کھمبے پر چڑھ گيا تھا اور دھمکی دينے لگا کہ وہ خود کو پھانسی دے دے گا۔ بعد ازاں اس کے ساتھيوں نے اسے سمجھایا اور وہ نیچے اتر آیا۔
-
پاکستانی ہی سب سے پہلے ملک بدر کيوں؟
ايک بے بس باپ
اڑتيس سالہ اعجاز اپنے اہل خانہ کے ليے ذريعہ معاش کا واحد ذريعہ ہیں۔ انہوں نے يورپ تک پہنچنے کے ليے اپنا مکان بيچ ڈالا تھا۔ وہ کہتے ہیں، ’’ميں بہت غريب آدمی ہوں۔‘‘ اپنے اہل خانہ کو غربت سے چھٹکارہ دلانے کا اعجاز کا خواب چکنا چور ہو کر رہ گيا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اسے يورپ ميں مرنا قبول ہے ليکن ترکی جانا نہيں۔
-
پاکستانی ہی سب سے پہلے ملک بدر کيوں؟
خوف کی زندگی
ايک پاکستانی تارک وطن پوليس سے بھاگ کر ’نو بارڈر کچن کيمپ‘ کی طرف جا رہا ہے۔ مہاجرين کو کيمپوں کے آس پاس ہی رکھا جاتا ہے اور رات کے وقت پوليس انہيں بندرگاہ کے علاقے اور شہر کے مرکز ميں نہيں جانے ديتی۔
-
پاکستانی ہی سب سے پہلے ملک بدر کيوں؟
مفت کھانا
تارکين وطن کھانے کے ليے قطاروں ميں کھڑے ہيں۔ نو بارڈر کيمپ ميں يہ مہاجرين سب کچھ مل کر ہی کرتے ہيں۔ اس کيمپ ميں کوئی کسی کا سربراہ نہيں اور سب کو برابر سمجھا جاتا ہے اور فيصلے مشترکہ طور پر مشاورت کے بعد کيے جاتے ہيں۔
-
پاکستانی ہی سب سے پہلے ملک بدر کيوں؟
سرد راتيں
پاکستانی تارکين وطن کا ايک گروپ خود کو گرم رکھنے کے ليے آگ لگا کر ہاتھ تاپ رہا ہے۔ ان ميں سے کچھ کا کہنا ہے کہ ترکی ميں انہيں يرغمال بنا ليا گيا تھا اور تاوان کے بدلے چھوڑا گيا تھا۔ ان ميں ايک پاکستانی حسن بھی ہے، جس نے اپنے خلاف قتل کی متعدد کوششوں کے بعد ملک چھوڑا تھا۔ اس کا کہنا ہے کہ ترکی اس کے ليے محفوظ ملک نہيں۔
مصنف: Jodi Hilton / عاصم سليم