1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لاہور کا ’شاہی حمام‘، اَسرار کھلتے ہوئے

وقار مصطفےٰ25 ستمبر 2014

پاکستان کے تاریخی شہر لاہور کی مشرقی سمت دلی دروازے سے کوتوالی تک ڈیڑھ کلومیٹر لمبی سڑک کئی سو سال پہلے بادشاہوں کا راستہ ہونے کی وجہ سے شاہی گزر گاہ کہلاتی ہے۔ یہیں شاہی حمام بھی ہے، جو اب بحالی کے مراحل سے گزر رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/1DKqr
لاہور کے شاہی حمام کا ایک منظر، آج کل وہاں پر تجدید اور مرمت کا کام جاری ہے
لاہور کے شاہی حمام کا ایک منظر، آج کل وہاں پر تجدید اور مرمت کا کام جاری ہےتصویر: DW/W. Mustafa

اب تک اس حمام کا مرکزی دروازہ دکانوں نے چھپا رکھا تھا۔ دلی دروازہ قدیم لاہور کے بارہ دروازوں میں سے ایک ہے۔ مغل بادشاہ اکبر نے تعمیر کروایا۔ رخ مغل سلطنت کے دارالحکومت دلی کی جانب تھا، سو نام دلی دروازہ رکھ دیا گیا۔

یہ حمام سترہویں صدی کے شروع میں مغلیہ حکومت کے صوبے دار حکیم علم الدین انصاری نے بنوایا۔ انہیں وزیر خان کا خطاب ملا تھا، سو ان کی تعمیر کو حمام وزیر خان بھی کہا جاتا ہے اور شاہی حمام بھی۔ وسطی ایشیا اور ایرانی حماموں کی طرزپر بنا یہ حمام عوام اور خواص مسافروں اور شہر کے باسیوں کے استعمال میں رہا۔ قریب ہی ایک سرائے بھی بنائی گئی تھی جس کے آثار اب نہیں ملتے۔

مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد لاہورشہر کی بگڑتی بدلتی تاریخ میں شاہی حمام گم ہو کےرہ گیا۔ برطانوی دور میں اس پر چونا پھیر دیا گیا۔ بعد میں اسے میونسپل کارپوریشن نے اپنی تحویل میں لے کر اسے بچوں کے لیے پرائمری سکول، بچیوں کے لیے دستکاری سکول، ڈسپنسری اور دیگر دفاترکے طور پر استعمال کیا۔

دلی دروازے کے باہر بودی پکارے جانے والے محمد اسلم مصنوعی زیور کا ٹھیلا لگاتے ہیں۔ باون سالہ بودی اسی علاقہ میں پیدا ہوئے۔ شاہی حمام میں قائم سکول میں تھوڑی بہت تعلیم حاصل کی۔ لہجہ اس کی عکاسی کرتا ہے:’’میں شاہی حمام میں پڑھتا رہا ہوں۔ میرا بچپن ادھر گزرا ہے۔ میری ادھر کی جم پل ہے۔ ہماری کلاسیں ہوتی تھیں۔ اندر مسجد بھی تھی۔ میں نےچوتھی جماعت میں چھوڑ دیا تھا۔‘‘

اس ’شاہی حمام‘ میں پانچ کمرے بھاپ غسل کے لیے مخصوص تھے، حرارت کا نظام سکھ عہد میں تباہ ہوا
اس ’شاہی حمام‘ میں پانچ کمرے بھاپ غسل کے لیے مخصوص تھے، حرارت کا نظام سکھ عہد میں تباہ ہواتصویر: DW/W. Mustafa

حمام کی عمارت کےشمال، جنوب اور مغرب میں دکانیں بن گئیں۔ یہ شادی ہال کے طور پر بھی استعمال ہوتا رہا۔ اور شاہی حمام کا تشخص ختم ہو کر رہ گیا۔ عمارت کےتحفظ کے لیے کیے گئے ہر اقدام سے اس کے بطور حمام استعمال، اس میں پانی کی بہم رسانی اور اس کے کمروں کے فرش کےتمام آثار گم ہو کر رہ گئے۔

محکمہ سیاحت کے ایک افسر محمد جاوید کا کہنا ہے:’’یہاں پر پچاس سے زائد دکانیں تھیں جو کہ انکروچمنٹ تھی۔ وہ شاپس دس دس پندرہ پندرہ فٹ شاہی حمام کے اندر آئی ہوئی تھیں۔‘‘

انہی دکانوں میں ایک کرائے کی دکان میں بودی اپنا کاروبار کرتے تھے۔ مگر پھر ایک روز یہ دکانیں معاوضہ دے کر گرا دی گئیں۔

یہ پرانے شہر کے حسن کو محفوظ کرنے کے ایک منصوبے کا حصہ تھا۔ منصوبہ کے تحت مدفون گم شدہ آثار کو سائنسی انداز پر کھدائی کے ذریعہ تلاش کیا جا رہا ہے۔

شاہی حمام کی بحالی آغا خان ٹرسٹ فار کلچرکےزیرانتظام کی جا رہی ہے۔ مالی معاونت شاہی مملکت ناروے کی ہے۔ عملی تعاون والڈ سٹی آف لاہور اتھارٹی کا ہے۔

والڈ سٹی آف لاہور اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل کامران لاشاری کہتے ہیں کہ اس منصوبے کا مقصد ایک جیتی جاگتی تاریخ اور ثقافت کو محفوظ بنانا ہے:’’یہ پراجیکٹ مینلی کمیونٹی ڈیویلپمنٹ کا ہے، انفراسٹرکچر کا ہے۔ واٹر سپلائی سسٹم نیا کیا گیا ہے، سیوریج سسٹم رینیو کیا گیا ہے۔‘‘

لاہور کا ’دہلی گیٹ‘، دلی دروازے سے کوتوالی تک کی شاہی گزر گاہ کہلانے والی ڈیڑھ کلومیٹر طویل سڑک پر ہی شاہی حمام بھی واقع ہے
لاہور کا ’دہلی گیٹ‘، دلی دروازے سے کوتوالی تک کی شاہی گزر گاہ کہلانے والی ڈیڑھ کلومیٹر طویل سڑک پر ہی شاہی حمام بھی واقع ہےتصویر: DW/W. Mustafa

کئی نسلوں سے آباد رہائشیوں اور دکانداروں کو بحالی کے منصوبے میں تعاون کے لیے تیار کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ پراجیکٹ سے متعلق ایک افسر تانیہ قریشی کے مطابق لوگوں کو قائل کیا گیا کہ یہ منصوبہ ان کے فائدے کے لیے ہے:’’ہم نے گلیوں کے رہائشی بچوں کو لے کرکمیونٹی موبلائزیشن کی۔ ہم نے کمیونٹی بیسڈ آرگنائزیشنز بنائیں۔ ان کو پہلے بتایا کہ ضرورت کیوں ہے ترقیاتی پراجیکٹس کی۔ وہ اس کے اندر کس طرح کنٹری بیوٹ کر سکتے ہیں۔ جو مشکلات ہمیں پیش آتی تھیں، انہی سے حل کروائیں۔ اگر ہم کمیونٹی کو انوالو نہ کرتے تو یہ پراجیکٹ اتنا کام یاب نہ ہوتا۔ سینس آف اونرشپ آ گئی۔ شاہی حمام کے لیے بھی ہم نے وہیں کے لوگوں کو لیا۔‘‘

کامران لاشاری اپنے کام کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’میرا خیال ہے پاکستان میں آرکیالوجی سائیڈ پہ، کنزرویشن سائیڈ پہ، اتنا اچھا پراجیکٹ کوئی اور شاید ہم ریلیٹ نہ کر سکیں۔ ایک وہ چیز جس کا کوئی شکل نمونہ ہی نہیں تھا۔ دبی ہوئی تھی۔ اب پندرہ فٹ بیس فٹ نیچے ایلیمینٹس آف شاہی حمام ملے ہیں۔ ہم نے اس میں سری لنکا کے ماہرین بھی شامل کیے۔‘‘

اپنی نوعیت کی جنوبی ایشیا میں واحدعمارت شاہ جہانی فن تعمیر، جو فارسی اور ترکی ڈیزائن کا مرکب ہے، کی ایک شاندار مثال ہے۔ 1000 سے زائد مربع میٹر احاطہ میں قائم ایک منزلہ عمارت ہے۔ نماز کے لیے قبلہ رخ ایک اضافی کمرا ہے۔ 21 کمروں اور گرم اور ٹھنڈے غسل کے لیےآٹھ آٹھ تالابوں پر مشتمل ہے۔ پانچ کمرے بھاپ غسل کے لیے مخصوص تھے۔ حرارت کا نظام سکھ عہد میں تباہ ہوا مگر برطانوی حکم رانوں نے اس کی بحال کی کوشش نہیں کی۔ بلکہ اسے رہائشی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا۔ مکمل رازداری برقرار رکھنے کا اہتمام تھا۔ چھتوں اور دیواروں کی چھت میں شاندار پھولوں کی پینٹنگز ہیں۔ حمام میں روشنی کا واحد ذریعہ روشن دان تھے۔ پرتعیش مساج کے لیے خصوصی کمرے تھے۔ خواتین کے لیے خواتین عملہ تھا۔ کہا جاتا ہے خواتین کے لیے دن بھی مخصوص تھا۔

لاہور کے شاہی حمام کا اصل داخلی دروازہ، جو دکانوں کے پیچھے چھُپ کر رہ گیا تھا
لاہور کے شاہی حمام کا اصل داخلی دروازہ، جو دکانوں کے پیچھے چھُپ کر رہ گیا تھاتصویر: DW/W. Mustafa

1955ء میں شاہی حمام کو ایک ثقافتی اثاثہ کے طور پر تسلیم کیا گیا۔1991ء میں دیواروں پر کیے گئے چونے کو مہارت سے ہٹایا گیا تو ان پر بنے نقش ونگار سامنے آ گئے۔
فنڈز کی کمی کی وجہ سے فرش سنگ مرمر کا بنا دیا گیا، جس کے نیچے تالاب، جھرنے اور پانی گرم کرنے کا نظام دب گیا۔

پورے برصغیر میں ایسا حمام موجود نہیں۔کھدائی ہوئی تو حیرتوں کا ایک جہان ملا۔ چینی مٹی اور مٹی کے نوادرات، بھٹیوں کا جال، پانی کی پیچیدہ گزر گاہیں، گرمی کو محفوظ کرتی اینٹیں، چھوٹے چھوٹے ستونوں پر مشتمل حرارت اور بھاپ کا نظام، ٹھنڈے پانی کے فوارے، مساج کے لیے جگہیں۔ پانی کی نکاسی کے لیے 20 فٹ گہرا گڑھا کھودا گیا تو 17 فٹ گہرائی پرایک سوراخ ملا، جس سے پورے حمام کو پانی فراہم کیا جاتا تھا۔ ہرگزرتے دن کے ساتھ نئی حیرت کا سامان۔ مگر آسانی سے نہیں۔ ہر قدم برطانوی دورکی اینٹیں ماضی کی تصویر کا راستہ روکتی ملتی ہیں۔

لاہور کی تاریخ سے شغف رکھنے والے مبصر مجید شیخ بہت پر جوش ہیں:’’یہ بہت یونیق مانیومنٹ ہے۔ اس کے ساتھ کے مانیومنٹ پورے برصغیر میں نہیں۔ اس کو جب انہوں نے کھودا تو جوں جوں نیچے جاتے گئے تو کم ازکم بارہ فٹ نیچے کا شہر لاہور ملنا شروع ہو گیا۔ اس تجربے سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ آرکیالوجی اور ڈگز کی بہت سخت ضرورت ہے تاکہ ہمیں علم ہو، لاہور تھا کیسا پہلے۔ لاہور اب ہمیں پتا چل رہا ہے کہ کم از کم چھ سات ہزار سال پرانا بھی ہو سکتا ہے۔‘‘

نومبر 2013ء میں شروع ہونے والا یہ منصوبہ سینکڑوں سال کی غفلت کے مداوے کی ایک کوشش ہے۔ یہ اگلے سال مارچ تک مکمل ہو گا۔ حمام کی اصل شکل سامنے آنے کے بعد، یہاں کچھ حصے گفت گو، مشاعرہ اور تاریخی قصہ گوئی کے لیے رکھے جائیں گے۔ ملحقہ کھلے علاقہ میں عجائب گھر اور سیاحوں کی سہولت کے لیے ریسٹورنٹ اور ٹائلٹ بھی بنائے جائیں گے۔

کامران لاشاری کو امید ہے کہ ’اس کی تکمیل کے بعد ٹورزم سے کمیونٹی کو ہیلپ ملے گی۔ اکنامک گروتھ ہو گی۔ کاروبار بڑھے گا‘۔

شاید اسی لیے محمد اسلم عرف بودی بھی کہتے ہیں:’’خواہش ہے کہ ہمیں ایسے ماڈل قسم کے ٹھیلے بنا کرد یں۔ ہم یہاں پر رونق دوبالا رکھیں۔‘‘