1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

قطر متعینہ نیپالی سفیر واپس بلا لی گئیں

عاطف بلوچ27 ستمبر 2013

قطر میں تعینات نیپال کی خاتون سفیر مایا کماری شرما کو ان کی طرف سے خیلج کی اس ریاست کو وہاں کام کرنے والے غیر ملکی کارکنوں کے لیے ’ایک کھلی جیل‘ قرار دیے جانے کے بعد کھٹمنڈو حکومت نے واپس بلا لیا ہے۔

https://p.dw.com/p/19pJS
قطر میں کام کرنے والے غیر ملکی مزدوروں کو نامساعد حالات کا سامنا ہےتصویر: Sam Tarling

مایا کماری شرما کی طرف سے یہ بیان اگرچہ چھ ماہ قبل دیا گیا تھا تاہم جمعرات کے روز برطانوی اخبار گارڈین کے تحقیقاتی رپورٹنگ والے صفحہء اول پر اس بیان کے دوبارہ شائع ہونے کے بعد نیپالی حکومت نے انہیں واپس بلانے کا فیصلہ کیا ہے۔ گارڈین کی اس تحقیقاتی رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ قطر میں 2022ء میں منعقد ہونے والے عالمی فٹ بال کپ مقابلوں کی تیاریوں کے سلسلے میں جاری تعمیراتی منصوبوں پر کام کرنے والے غیر ملکی مزدروں کا استحصال کیا جا رہا ہے۔ اس برطانوی اخبار کے مطابق حالیہ موسم گرما کے صرف ایک ماہ کے دوران ہی وہاں انہی تعمیراتی منصوبہ جات پر کام کرنے والے 44 نیپالی مزدور ہلاک ہو گئے۔

قطر میں غیر ملکی مزدروں کے لیے مبینہ استحصالی حالات کار کے تناظر میں مایا کماری شرما کی طرف سے قطر کو غیر ملکی مزدوروں کے لیے ’ایک کھلی جیل‘ قرار دیے جانے کے حوالے سے نیپالی حکومت نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ قطر حکومت کی طرف سے شکایت موصول ہونے کے بعد متعلقہ سفیر کو واپس بلایا گیا ہے۔

Katar WM-Gastgeber FIFA 2022 Stadion
قطر میں 2022ء میں منعقد ہونے والے عالمی فٹ بال کپ مقابلوں کی تیاریوں کے سلسلے میں جاری تعمیراتی منصوبوں پر کام جاری ہےتصویر: picture alliance/Frank Rumpenhorst

نیپالی وزیر اطلاعات مادھو پاؤدل نے کہا ہے کہ مایا کماری شرما کو قریب ڈیڑھ برس قبل ماؤ نواز حکومت نے قطر میں نیپال کا سفیر مقرر کیا تھا۔ انہوں نے مزید کہا، ’’حکومت نے انہیں (مایا کماری شرما کو) واپس بلانے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ انہوں نے سفارتی لوازمات کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا۔‘‘

گارڈین اخبار کی رپورٹ کے مطابق قطر میں کام کرنے والے غیر ملکی مزدوروں کو نامساعد حالات کا سامنا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کچھ کارکنوں کو کئی ماہ تک صرف اس لیے تنخواہیں ادا نہیں کی جاتیں تاکہ وہ کام چھوڑ کر واپس نہ چلے جائیں۔ مزید یہ کہ متعدد کارکنوں کو پینے کے صاف پانی تک رسائی بھی حاصل نہیں ہوتی جبکہ بہت سے مزدوروں کے پاسپورٹ بھی ضبط کر لیے جاتے ہیں۔

گارڈین کے مطابق، ’’مجموعی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ دنیا کی ایک امیر ترین ریاست عالمی سطح پر کھیلوں کے مقبول ترین ٹورنامنٹ کے انعقاد کی تیاریوں کے سلسلے میں ایک غریب ترین ریاست کے شہریوں کا استحصال کر رہی ہے۔‘‘ اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ حالیہ موسم گرما کے دوران وہاں روزگار کے ابتر حالات کی وجہ سے روزانہ تقریباﹰ ایک نیپالی کارکن ہلاک ہوا ہے۔ گارڈین کے ایک تخمینے کے مطابق اگر وہاں مزدوروں کے لیے حالات بہتر نہیں بنائے جاتے تو 2022ء تک قطر میں ہلاک ہو جانے والے مزدوروں کی تعداد چار ہزار تک پہنچ سکتی ہے۔

ادھر فٹ بال کے منتظم عالمی ادارے فیفا نے کہا ہے کہ وہ قطر میں حالات کار کے ناسازگار ہونے کے حوالے سے متعدد بین الاقوامی مزدور تنظیموں اور لیبر گروپوں سے مشاورت کر رہا ہے۔ فیفا کے مطابق قطر نے لیبر قوانین میں اصلاحات کے حوالے سے وعدے بھی کیے ہیں تاکہ وہاں کام کرنے والے غیر ملکی کارکنوں کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کیا جا سکے۔

ہر سال ہزاروں نیپالی باشندے روزگار کی تلاش میں بیرونی ممالک کا رخ کرتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر کی منزل خلیجی ممالک یا جنوب مشرقی ایشیائی ریاستیں ہوتی ہیں۔ کھٹمنڈو حکومت کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق صرف قطر میں ہی تین لاکھ نیپالی کارکن کام کاج کی غرض سے مقیم ہیں۔