چوبیس سال بعد افریقی ملک سوڈان میں پہلے کثیر الجماعتی انتخابات کا نقشہ بدلتا جا رہا ہے۔ اپوزیشن نے انتخابی عمل کا بائیکاٹ کر کے حکمران جماعت کے لئے میدان کھلا چھوڑ دیا ہے۔
صدارتی امیدوار یاسر ارمان پہلے ہی انتخابی مہم ختم کر چکے ہیں
سوڈان میں اِس ماہ کی گیارہ سے تیرہ تاریخ کے دوران صدارتی، پارلیمانی اور مقامی کونسلوں کے انتخابات منعقد کئے جا رہے ہیں۔ اِن کی مانیٹرنگ کے لئے غیر ملکی مبصرین بھی سوڈان پہنچ چکے ہیں۔ اِن مبصرین میں سابق امریکی صدر جمی کارٹر کے کارٹر سینٹر کے کارکن خرطوم اور دوسرے شہروں میں صورت حال کی جانکاری کے لئے سرگرم ہیں۔
ابھی جمعرات ہی کو برطانوی وزارت خارجہ نے امریکہ اور ناروے کے وزرائے خارجہ کے ہمراہ ایک مشترکہ بیان جاری کیا تھا، جس میں اپوزیشن جماعتوں کو انتخابی عمل میں شرکت کے لئے حکومت اور الیکشن کمیشن کے ساتھ مذاکرات جاری رکھنے کا مشورہ دیا گیا تھا۔ اعلان میں کہا گیا تھا کہ بات چیت کے ذریعے حل طلب معاملات کو مثبت سمت دکھائی جا سکتی ہے۔
گزشتہ روز سوڈان کی اپوزیشن جماعتوں نے دارالحکومت خرطوم میں ایک اجلاس میں شرکت کرنے کے بعد فیصلہ کیا کہ وہ انتخابی عمل میں شامل نہیں ہوں گی۔ بائیکاٹ کے اِس فیصلے میں اُن کا یقین شامل ہے کہ حکمران جماعت انتخابات کے دوران دھاندلی ضرور کرے گی۔ اِس کے علاوہ یہ جماعتیں انتخابات کو ملتوی کروانے کی بھی خواہشمند ہیں۔
سوڈان کے صدر عمر البشیر
اپوزیشن جماعتوں اور حکومت کے درمیان تعطل کے باعث بدھ کو جنوبی سوڈان کی مقبول جماعت پیپلز لبریشن موومنٹ نے اپنے صدارتی امیدوار یاسر ارمان کو انتخابی مہم ختم کرنے کی ہدایت کرتےہوئے الیکشن سے دستبرداری کا اعلان کردیا تھا۔ اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ کئی غیر ملکی اداروں کے نمائندے بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ سردست الیکشن کا التوا ناگزیز ہے۔
سوڈان کے انتخابی عمل پر تنقید کرنے والوں میں انٹرنیشنل کرائسس گروپ اور انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نمایاں ہیں۔ اِن کے مطابق ووٹروں کی رجسٹریشن کے دوران بوگس نام اور غلط کوائف کا اندراج کیا جا رہا ہے۔ اِن کے مطابق انتخابات کے شفاف اور قابل اعتماد ہونے کا امکان کم ہے۔
دوسری جانب سوڈان کے صدر عمر البشیر نے واضح کیا ہے کہ ملک میں انتخابات کا انعقاد قومی ذمہ داری ہے اور یہ ہر ممکن طور پر مکمل کی جائے گی۔
رپورٹ: عابد حسین
ادارت: ندیم گِل