سوات سے تعلق رکھنے والے بیس سالہ نوجوان عبداللہ کو 24 مئی 2017 ء کو بی ایس ایف کے اہلکاروں نے اُس وقت گرفتار کر لیا تھا، جب اُس نے واہگہ بارڈر کی زیرو لائن کو کراس کیا تھا۔
عبداللہ کے بڑے بھائی سردار خان نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اُس کے بھائی کا ذہنی توازن بھی ٹھیک نہیں تھا جبکہ ڈاکٹروں سے اُس کا علاج بھی جاری تھا۔ سردار خان نے بتایا کہ بالی ووڈ کے اداکاروں سے ملنے کا اُسے جنون کی حد تک شوق تھا، ’’وہ گھر سے پاسپورٹ کے بہانے نکلا اور ہمیں علم نہیں کہ وہ لاہور کیسے پہنچا، پھر ہمیں میڈیا کے ذریعے پتہ چلا کہ اُسے بی ایس ایف نے گرفتار کیا ہے۔‘‘
عبداللہ گیارہ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا ہے۔ گرفتاری کے بعد عبداللہ کی ماں اور والد دل کے عارضے میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ عبد اللہ کے والد زڑہ ور خان نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’جب ہمیں عبداللہ کی گرفتاری کی خبر ملی تو وہ شدت غم سے نڈھال ہوگئے۔ اُس کی ماں ہر روز اسے یاد کرتی ہے جبکہ سب عبداللہ کی رہائی کے لئے دعاگو ہیں۔‘‘
عبداللہ کی رہائی کے لیے کافی کوششیں کی گئیں لیکن ابھی تک اس کی رہائی ممکن نہ ہو سکی ہے۔ عبداللہ کے بھائی سردار کے مطابق، ’’ہم نے ممبران قومی و صوبائی اور وزارء سے لے کر سب سے امداد کی اپیل کی جبکہ انڈیا میں پاکستانی ایمبیسی کو بھی درخواست کی لیکن ابھی تک کوئی شنوائی نہ ہوسکی۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ’’ اِن چار مہینوں میں عبداللہ نے ایک مرتبہ فون کے ذریعے رابطہ کیا اور کہا کہ وہ امرتسر کی جیل میں قید ہے اور اُسے جج کے سامنے پیش کیا جا چکا ہے،جج نے دو مہینے کے اندر اندر عبداللہ کی رہائی کا بھی کہا تھا۔‘‘
عبداللہ کی رہائی اور معلومات کے لیے جب پاکستانی محکمہ خارجہ کے دفتر سے رابطہ کیا گیا تو بتایا گیا، ’’ہم اس حوالے سے کچھ کہنے یا کرنے سے قاصر ہے، انڈیا میں قائم پاکستانی سفارتخانہ ہی عبداللہ کی رہائی یا اس کے بارے میں معلومات فراہم کرسکتا ہے۔‘‘
سوات کا بیس سالہ نوجوان عبداللہ درزی تھا اور اپنے گھر کے اخراجات میں حصہ بھی ڈالتا تھا۔ سردار خان کے مطابق حکومتی سطح پر عبداللہ کی رہائی کے لیے اقدامات نہیں اُٹھائے گئے ہیں۔ عبداللہ کے گھروالوں نے حکومت پاکستان، بھارتی حکومت اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے تعاون کی اپیل کر رکھی ہے۔