خیبر پختونخوا میں تعلیمی اصلاحات اور حنا کی مشکلات
12 اگست 2015صوبہ خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت نے تعلیمی اصلاحات کر کے حناکو تعلیم حاصل کرنے کے لئے چھ کلومیٹر دور پیدل جانے پر مجبور کر دیا ہے۔ سوات سمیت پورے خیبر پختون خواہ میں صوبائی حکومت کی جانب سے ایک ہزار مکتب اسکولوں کو بند کر کے دیگر سرکاری اسکولوں میں ادغام کردیا ہے، جس کے باعث کم و بیش ایک لاکھ بچوں کا مستقبل داﺅ پر لگ گیا ہے۔
اپریل 2015ء میں صوبائی حکومت کی جانب سے مکتب اسکولوں کو بند کرنے کے احکامات جاری کئے گئے، گرمیوں کی چھٹیاں ختم ہوتے ہی اگست میں جب بچے سکول پہنچے تو وہاں سرے سے سکول ہی موجود نہ تھے۔ سوات کے علاقے کبل سے چھ کلومیٹر کی مسافت پر واقع پہاڑی گاﺅں ٹانگو چینہ کی دس سالہ حنا بھی جب یکم اگست کو اسکول پہنچی تو وہاں سکول ہی نہیں تھا۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے پانچویں جماعت کی طالبہ حنا نے کہا کہ ہمارے علاقے میں صرف ایک ہی پرائمری اسکول تھا، جو مکتب اسکول کے نام سے جانا جاتا تھا، اس کے علاوہ نزدیک کوئی اور سکول موجود نہیں، ”علاقے کے تمام بچے اسی مکتب اسکول میں کھلے آسمان تلے علم کی پیاس بجھاتے تھے، جب ہمیں پتہ چلا کہ حکومت کی جانب سے ہمارے سکول ختم کئے گئے ہیں اور اب ہمیں چھ کلومیٹر دور پیدل چل کر دوسرے اسکول جانا پڑے گا، تو بہت دکھ ہوا اور ساتھ ساتھ یہ بھی سوچنے پر مجبور ہوئے کہ اب اتنی دور اسکول کون جائے گا؟‘‘
صوبائی حکومت کی جانب سے اس اقدام کے خلاف سوات کے 93 مکتب اسکولوں کے طلبہ، ان کے والدین اور سماجی افراد سراپا احتجاجبھی کیا ہے۔ گزشتہ روز علاقے منگلور میں دو ہزار کے قریب طلبہ نے احتجاجی مظاہرہ کیا اور حکومت سے مکتب اسکولوں کو دوبارہ فعال بنانے یا ان کی جگہ دیگر سرکاری اسکول بنوانے کا مطالبہ کیا۔ اس احتجاج میں حنا بھی شریک ہوئی۔ حنا کا کہنا تھا کہ اسے پڑھنے لکھنے کا بہت شوق ہے، ’’ میں بڑی ہو کر استانی بننا چاہتی ہوں تاکہ اپنے علاقے میں تعلیم عام کرسکوں۔ ہم ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں اور میرے والدین کے پاس اتنے پیسے نہیں کہ مجھے دور کسی اسکول بھیجنے کے لئے گاڑی یا دیگر سواری کا بندوبست کر سکے۔“
سوات سمیت صوبہ بھر میں ایک ہزار کے قریب مکتب اسکول قائم تھے، جن میں بچے ٹینٹوں یا کھلے آسمان تلے ایک یا دو اساتذہ کے زیر سایہ تعلم حاصل کرتے تھے۔ یہ مکتب اسکول پہاڑی علاقوں میں قائم تھے کیونکہ وہاں پر حکومت کی جانب سے اسکول کی عمارت کا قیام ممکن نہ تھا۔ اسی لئے پرائمری تک بچے اور بچیاں ان ہی مکتب اسکولوں میں پڑھائی کرتے تھے۔ جن علاقوں میں ان اسکولوں کو ختم کیاگیا ہے، وہاں پر نزدیک کوئی اور اسکول موجود نہیں۔ تین کلومیٹر سے لے کر چھ کلو میٹر تک کے فاصلے پر ہی کہیں سرکاری اسکول کی عمارت ہے، جہاں پر ان بچوں کا پہاڑی علاقوں سے پہنچنا بہت مشکل کام ہے۔
تعلیم کے لئے سر گرم سماجی کا رکن ڈاکٹر جواد اقبال نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ خیبر پختونخواہ حکومت کا یہ حکم ’انتہائی ظالمانہ‘ ہے۔ مکتب اسکولوں کا ادغام جن اسکولوں میں کیا گیا ہے وہ بہت دور ہیں، ”ایسی صورتحال میں بچے اتنی کم عمر میں کیسے دوسرے اسکولوں میں جاسکیں گے۔ سرکاری اسکولوں میں پڑھنے والے بچوں کی تعداد پہلے سے زیادہ ہے، ان بچوں کی وجہ سے اسکولوں میں تعداد مزید بڑھ جائے گی، جس کے باعث دوسرے اسکولوں میں بھی مسائل پیدا ہوں گے۔“
صوبائی حکومت کی جانب سے اس سال بجٹ میں تعلیم کے لئے97 ارب روپے منظور ہوئے تھے جس کے بعد اُمید کی جا رہی تھی کہ ان مکتب اسکولوں کی جگہ پر پختہ عمارتیں قائم کرتے ہوئے بچوں کو سہولیات فراہم کی جائیں گی۔ لیکن معاملہ اس کے بر عکس نکلا، مکتب اسکولوں کے خاتمے کے حوالے سے جب منتخب حکومتی نمائندوں اور دیگر عہدیداروں سے رابطہ ہوا تو انہوں نے اس معاملے پر بات کرنے سے گریز کیا۔
ایڈیشنل ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر ذوالفقار ملک نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان تمام اسکولوں کا خاتمہ اور دوسرے اسکولوں میں ادغام ایک پالیسی کے تحت عمل میں لا یا گیا ہے، ” متعلقہ محکمہ کو احکامات موصول ہوئے اور ہم نے ان اسکولوں کا خاتمہ کر کے ان کو دیگر سرکاری اسکولوں میں ضم کیا ہے اور اس کے علاوہ ہم کچھ بھی نہیں کر سکتے۔“
صوبے بھر میں مکتب اسکولوں کے خاتمے سے نئے مسائل پیدا ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے،تعلیمی ماہرین کا کہنا ہے کہ 18ویں ترمیم کے آرٹیکل 25-Aکے تناظر میں تعلیم ہر بچے کا بنیادی حق ہے۔