1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’خواتین سیاستدانوں کو جنسی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے‘

عاطف توقیر انٹرویو
16 مارچ 2018

ڈی ڈبلیو کے ساتھ انٹرویو میں سماجی کارکن اور پاکستانی سیاست دان عمران خان کی سابقہ اہلیہ ریحام خان نے اپنی آنے والی کتاب، خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے واقعات اور اپنی پاکستان واپسی کے موضوعات پر بات چیت کی۔

https://p.dw.com/p/2uTlJ
Pakistan Reham Khan Ex-Ehefrau des Politikers Imran Khan
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B.K. Bangash

ڈی ڈبلیو: اپنی آنے والی خودنوشت کے بارے میں بتائیے۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق یہ کتاب آپ کے سابقہ شوہر عمران خان سے متعلق متعدد منفی باتوں پر مشتمل ہے؟

ریحام خان: یہ کتاب میری زندگی، میرے تجربات، مختلف براعظموں اور مختلف ثقافتوں کے سفر سے متعلق ہے۔ میری شادیاں میری زندگی کا حصہ ہیں، اس لیے ان کا تذکرہ بھی اس کتاب میں شامل ہے۔ یہ کتاب سچی باتوں سے عبارت ہے۔

ڈی ڈبلیو: آپ نے کیوں اس کتاب کا اجرا پاکستان میں عام انتخابات سے قبل رکھا؟

ریحام خان:  اس کتاب کے اجرا کی تاریخ کو عام انتخابات کے انعقاد کو سوچ کر نہیں طے نہیں کیا گیا۔ پہلی بات یہ ہے کہ ہمیں یہ معلوم ہی نہیں کہ آیا انتخابات رواں برس ہی ہوں گے۔ دوسری بات مجھے اپنی تکلیف دہ یادداشتوں کو کاغذ پر اتارنے میں وقت لگا ہے۔ یہ ایسا ہی تھا، جیسا اپنے زخم کھروچنا۔ میرے خیال میں پاکستان کے عوام، پالیسی ساز اور غیرملکی سرمایہ کار میرے تجربات سے سیکھ سکتے ہیں۔ اگر اس سال انتخابات ہوتے ہیں، تو میرے خیال میں یہ کتاب لوگوں کو پاکستان کو بہتر انداز سے جاننے میں مددگار ثابت ہو گی۔

Pakistan Hochzeit Imran Khan Reham Khan 8.1.2015
ریحام خان اور عمران خان کی شادی سن 2015 میں ہوئی تھیتصویر: Facebook/Imran Khan Official

ڈی ڈبلیو:  عمران خان کی سابقہ اہلیہ کے بہ طور، کیا آپ نے کبھی پاکستانی سیاست میں حصہ لیا؟

ریحام خان:  میں واضح طور پر کہتی ہوں کہ میں نے کبھی پی ٹی آئی کی سیاست میں حصہ نہیں لیا۔ میں فقط انہی سرگرمیوں کا حصہ تھی، جس کا مجھے کہا گیا تھا۔ بالکل ویسے ہی، جیسے دنیا بھر میں سیاست دانوں کی بیویوں سے کہا جاتا ہے۔ اگر سابق برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کی اہلیہ اپنے شوہر کی انتخابی مہم میں شامل ہو کر گھر گھر کا دروازہ کھٹکھٹا سکتی ہے، تو ریحام خان پر تنقید کیوں۔ میں نے وہی کچھ کیا، جس کا مجھے کہا گیا۔ میں نے کبھی اپنے لیے کسی سیاسی تقریب کا خود انعقاد نہیں کیا۔

ڈی ڈبلیو: کیا خواتین سیاست دانوں کو ان کے مرد ساتھی سیاست دانوں سے اہمیت کا احساس ملتا ہے؟ اور عمران خان کی تحریک انصاف میں خواتین سیاست دانوں کے ساتھ کیسا رویہ روا رکھا جاتا ہے؟

ریحام خان: پاکستان میں خواتین سیاست دانوں کو شدید انداز سے جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے مسائل کا سامنا ہوتا ہے اور ایسا ان کی اپنی جماعتوں میں بھی ہوتا ہے اور مخالفین کی جانب سے بھی۔ جنسی انداز کے جملے وہاں عمومی ہیں اور پارٹی پوزیشنز جنسی افعال کے عوض دی جاتی ہیں۔ بہت سی خواتین جو ایسی درخواستیں رد کرتیں ہیں، اپنے کریئر تک کو خیرباد کہنے پر مجبور ہو گئیں۔  پاکستان میں خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے واقعات کے سدباب کے لیے ایک آزاد کمیشن قائم ہونا چاہیے، جو کسی بھی پارٹی سے تعلق نہ رکھتا ہو۔

ڈی ڈبلیو:پاکستانی سیاسی جماعتوں کو کیوں خواتین کو زیادہ بااختیار بنانا چاہیے؟

ریحام خان: پارٹی عہدوں کا انتخاب میرٹ پر ہونا چاہیے۔ جیسا کہ برطانیہ میں کسی سیاسی عہدے کے لیے ایک سنجیدہ اور طویل عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔ سیاسی عہدوں پر تقرر پارٹی صدر یا کوئی بااثر شخص نہیں کرتا۔ پاکستانی سیاسی جماعتوں میں انتخاب کا عمل صرف ایک دکھاوا ہے۔

ڈی ڈبلیو: کیا آپ پاکستان واپسی کا منصوبہ رکھتی ہیں اور کیا آپ سیاست میں حصہ لیں گی؟

ریحام خان: بالکل، پاکستان میرا گھر ہے اور میں اس سے زیادہ دیر دور نہیں رہ سکتی۔ میں سیاست اپنے طور پر کر رہی ہوں۔ میں خواتین اور یوتھ لیڈرز کے لیے مواقع پیدا کر رہی ہوں۔ میں چاہتی ہوں کہ خواتین ووٹرز رجسٹرڈ ہوں اور ان کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔ میں مستقل کے پارلیمنٹیریئنز کو ایک خصوصی پروگرام کے ذریعے تربیت دے رہی ہوں۔ میں نے ابھی یہ نہیں سوچا کہ میں کسی سیاسی جماعت کا حصہ بنوں گی یا نہیں۔ میں پارلیمان کی نشست حاصل کرنے کی سیاست میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ ہاں، جب میں نے محسوس کیا کہ کسی طرح سے میری شمولیت پاکستان میں عوام کی زندگیوں میں تبدیلی کا باعث ہو سکتی ہے، تو میں کسی سیاسی جماعت میں شمولیت کا سوچ سکتی ہوں۔