توہین مذہب کا الزام: طالب علم کو تشدد کر کے ہلاک کر دیا گیا
13 اپریل 2017خبر رساں ادارے روئٹرز نے مردان یونیورسٹی کی انتظامیہ اور مقامی پولیس کے حوالے سے بتایا ہے کہ مشتعل ہجوم کا الزام تھا کہ مشعل خان نامی اس طالب علم نے سوشل میڈیا پر توہین مذہب پر مبنی مواد شیئر کیا تھا۔
آج جمعرات 13 اپریل کو پیش آنے والے اس واقعے میں مردان کی ولی خان یونیورسٹی کے مشتعل طلبہ نے شعبہ صحافت کے طالب علم مشعل خان پر شدید جسمانی تشدد کیا۔ پاکستانی میڈیا نے پولیس کے حوالے سے بتایا ہے کہ مشعل خان کی موت گولی لگنے سے ہوئی۔
پاکستان میں توہین مذہب ایک نازک معاملہ ہے۔ مسلمانوں کی اکثریت رکھنے والے ملک پاکستان میں پیغمبر اسلام یا دیگر پیغمبروں کی توہین ایک بڑا جرم ہے۔ ماضی میں بھی کئی ایسے واقعات پیش آ چکے ہیں جب لوگوں کو توہین مذہب یا توہین رسالت کے الزام کے تحت تشدد کر کے ہلاک کر دیا گیا۔
سنٹر فار ریسرچ اینڈ سکیورٹی اسٹڈیز کی ایک رپورٹ کے مطابق سن 1990ء کے بعد سے اب تک کم از کم 65 افراد کو توہین مذہب کے الزام کے تحت قتل کیا جا چکا ہے۔ 2011ء میں پاکستانی صوبہ پنجاب کے اُس وقت کے گورنر سلمان تاثیر کو انہی کے ایک باڈی گارڈ نے اسی الزام کے تحت فائرنگ کر کے قتل کر دیا تھا۔ تاثیر کے قاتل ممتاز قادری کو گزشتہ برس ہی اس جرم کی سزا میں پھانسی دی گئی۔
روئٹرز کے مطابق پاکستانی حکومت اب اس معاملے پر توجہ دے رہی ہے۔ پاکستانی وزیراعظم نواز شریف نے گزشتہ ماہ ایک حکم جاری کیا تھا جس میں آن لائن موجود توہین آمیز مواد ہٹانے کا کہا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ اس طرح کا مواد سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے والوں کو سخت سزائیں دی جائیں۔
مردان کی مقامی پولیس کے سربراہ محمد عالم شنواری نے روئٹرز کو بتایا کہ ولی خان یونیورسٹی میں پیش آنے والے اس واقعے کے بعد 10 طالب علموں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ شنواری کے مطابق، ’’طالب کی موت کی وجہ بننے والے شدید تشدد کے بعد مشتعل ہجوم اس کی لاش کو جلانا چاہتا تھا۔‘‘
ابھی تک یہ واضح نہیں ہو سکا کہ مشعل خان نے ایسا کون سا مواد سوشل میڈیا پر شیئر کیا تھا جس پر اس کے خلاف توہین مذہب کا الزام لگا۔ روئٹرز کے مطابق مشعل خان کے ایک استاد کا کہنا ہے کہ وہ ایک پرجوش اور ناقدانہ رائے رکھنے والا طالب علم تھا: ’’وہ بہت ذہین اور متجسس طالب علم تھا جو ملک کے سیاسی نظام کے بارے میں ہمیشہ شکایت کرتا رہتا تھا مگر میں نے کبھی اس کے منہ سے مذہب کے خلاف کوئی بات نہیں سنی۔‘‘