1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت میں شادیوں کی رجسٹریشن لازمی بنا دینے کی سفارش

جاوید اختر، نئی دہلی
5 جولائی 2017

بھارت میں ایک غیر معمولی پیش رفت کے تحت حکومتی قانون کمیشن نے مسلمانوں سمیت تمام فرقوں کے افراد کی شادیوں کی رجسٹریشن لازمی کر دینے کی سفارش کی ہے۔ بعض حلقے اسے اپنے عائلی قانون میں مداخلت کی کوشش قرار دے رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/2fy1k
بھارت میں تمام شادیوں کی لازمی رجسٹریشن کی شفارش حکومتی قانون کمیشن نے کی ہےتصویر: Imago/Hindustan Times

پیچیدہ قانونی امور پر حکومت کو مشورہ دینے والے قومی قانون کمیشن نے حکومت سے سفارش کی ہے کہ تمام مذاہب کے شہریوں کی شادیوں کو شادی کے تیس دن کے اندر اندر لازمی طور پر رجسٹریشن کیا جانا چاہیے اور مسلمانوں سمیت کسی بھی عقیدے کے افراد کو اس عمل سے استثنیٰ نہ دیا جائے۔

اس کے علاوہ رجسٹریشن میں بلاوجہ تاخیر پر یومیہ پانچ روپے کے حساب سے جرمانہ بھی عائد کیا جائے اور شادی سے متعلق غلط یا گمراہ کن معلومات دینے پر بھی جرمانہ عائد کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ تجویز کے مطابق کسی بھی شادی کو ایک سال کے اندر اندر رجسٹرکرایا جا سکتا ہے لیکن اس کے لیے مجاز اتھارٹی سے تحریری منظوری لینا ہو گی جب کہ ایک سال کے بعد صرف کسی فرسٹ کلاس مجسٹریٹ کی منظوری کے بعد ہی کسی شادی کی رجسٹریشن ممکن ہو سکے گی۔ اس کمیشن نے تاہم واضح کیا ہے کہ رجسٹریشن نہ کرانے پر قانون کے نظر میں کوئی شاد ی غیر مؤثر نہیں ہو گی۔

Indien Mitgift Hochzeit in Amritsar 2010
’شادی کی رجسٹریشن نہ کروانے کا مطلب عورت کے حقوق کی نفی ہے‘تصویر: Narinder Nanu/AFP/Getty Images

قومی قانون کمیشن کے سربراہ اور بھارتی سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس بی چوہان نے شادیوں کی رجسٹریشن کی حمایت میں پیش کردہ اپنی سفارشات میں کہا ہے، ’’حالیہ دنوں میں فرضی شادیوں کے متعدد واقعات سامنے آئے ہیں اور لازمی رجسٹریشن کی عدم موجودگی میں خواتین دھوکا دہی کا شکار ہو رہی ہیں۔ ان کے لیے معاشرے میں اپنا مقام حاصل کرنا مشکل ہو جاتا ہے اور وہ قانونی تحفظ سے بھی محروم رہتی ہیں۔ لازمی رجسٹریشن سے شادیوں کو قانونی تحفظ فراہم کرنے میں بھی آسانی پیدا ہو گی،‘‘

وزیر اعظم مودی کی حکومت میں ملکی وزارت قانون نے گزشتہ فروری میں اس قانون کمیشن کو شادیوں کی لازمی رجسٹریشن کے معاملے پر غورکر کے اپنی رپورٹ پیش کرنے کے لیے کہا تھا۔ کانگریس پارٹی کی قیادت والی متحدہ ترقی پسند اتحاد کی سابقہ حکومت میں بھی 2012 میں اس حوالے سے ایک بل پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا تھا۔ ایوان بالا نے اس کی منظوری دے دی تھی لیکن 2014 میں جب لوک سبھا میں یہ بل پیش کیا گیا تھا تو لوک سبھا تحلیل ہو جانے کی وجہ سے اس بل کی منظوری کے لیے مقررہ مدت بھی قانونی طورپر ختم ہو گئی تھی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ قانون کمیشن کی ان سفارشات کے قانون بن جانے سے ملک میں سنگین نوعیت کے بہت سے سماجی اور قانونی مسائل کو حل کرنے میں مدد ملے گی۔ اس سے بچوں کی شادیاں روکنے میں بھی مدد ملی گی اور شادی کے لیے کم از کم عمر کے قانون پر عمل درآمد بھی یقینی بنایا جا سکے گا جبکہ غیر قانونی شادیوں اور ایک سے زائد شادیوں کی روک تھام کے ذریعے خواتین کو بھی زیادہ بااختیار بنایا جا سکے گا۔

عظمیٰ بھارت پہنچ گئیں

بیک وقت تین طلاقیں: بھارتی سپریم کورٹ میں سماعت شروع

بھارت میں اجتماعی شادی، دلہنوں کو کئی ہزار ڈالر کے تحفے بھی دیے گئے

بھارتی مسلمانوں کا ایک حلقہ ان سفارشات کو اپنے لیے مؤثر شرعی قوانین میں براہ راست مداخلت کی کوشش کے طور پر دیکھ رہا ہے۔ ان حلقوں کے خدشات کو شدت پسند ہندو تنظیم وشو ہندو پریشد کے قومی صدر پروین توگڑیا کے اس بیان سے بھی مزید تقویت ملتی ہے، جس میں توگڑیا نے کہا تھا، ’’ٹیکس اصلاحات سے متعلق قانون کے حالیہ نفاذ کے بعد یہ ثابت ہو گیا ہے کہ مودی حکومت کوئی بھی قانون اکثریت سے منظور کروا سکتی ہے اور اب اسے یکساں سول کوڈ بھی منظور کروا لینا چاہیے، کیوں کہ اس کے پاس ایسا نہ کرنے کا اب کوئی جواز باقی نہیں بچا۔‘‘

Kinderehe in Indien
ماہرین کے مطابق شادیوں کی لازمی رجسٹریشن سے کم عمری کی شادیوں کو بھی روکا جا سکے گاتصویر: picture alliance/AP Photo/P. Hatvalne
Kinderehe in Indien
تصویر: picture alliance/AP Photo/P. Hatvalne

تاہم کئی مسلم رہنماؤں کا کہنا ہے کہ یکساں سول کوڈ کا نفاذ صرف خام خیالی ہے کیوں کہ یہ صرف مسلمانوں، مسیحیوں یا دیگر عقائد کے حامل شہریوں اور طبقات ہی کا معاملہ نہیں ہے بلکہ ہندوؤں کے بھی مختلف رسوم و رواج اور عائلی قوانین ہیں، جن کی بنیاد پر سب کے لیے یکساں سول کوڈ نافذ کرنا ناممکن ہے۔

بھارت: ’غیر شادی شدہ خواتین بھی اسقاط حمل کروا سکیں گی‘

بچپن کی شادی کی فرسودہ روایات کے خلاف کھڑی ہونے والی لڑکی

بھارت، مرد شادی کے خواہشمند مگر دلہنیں ناپید

بھارت میں مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن کمال فاروقی سے جب ڈی ڈبلیو نے یہ پوچھا کہ آیا اس طرح کے کسی اقدام سے یکساں سول کوڈ کا راستہ کھل جانے کا امکان ہے، تو انہوں نے کہا، ’’مجھے نہیں لگتا کہ ایسا ہو گا۔ ہر چیزکو اس زاویے سے نہیں دیکھنا چاہیے۔ یہ بھی تو دیکھیے کہ ایسے بہت سے لوگ شادی کر کے بیوی کو بے یار و مددگار چھوڑ دیتے ہیں۔ عورتوں کے پاس چونکہ شادی کا کوئی ثبوت نہیں ہوتا، اس لیے انہیں سخت پریشانی اٹھانا پڑتی ہے۔‘‘

شادیوں کی رجسٹریشن لازمی بنا دینے کے حوالے سے کمال فاروقی کا مزید کہنا تھا، ’’ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ ہم تو خود بھی کہتے ہیں کہ رجسٹریشن ہونا چاہیے۔ لیکن اب تک جن لوگوں کی شادیوں کی رجسٹریشن نہیں ہوئی، ان کی شادیوں کو بھی غیر قانونی قرار نہ دیا جائے۔ مسلمانوں میں یوں بھی شادیوں میں نکاح نامے پر دستخط کرائے جاتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ نکاح نامے کو ہی تسلیم کیا جائے اور اس حوالے سے اختیارات نکاح پڑھانے والے حضرات کو دے دیے جائیں۔‘‘