بھارتی ریاست ہریانہ میں مظاہرین اور سکیورٹی فورسز کے مابین جھڑپوں کی وجہ سے کم از کم چار افراد ہلاک جبکہ 78 زخمی ہو گئے ہیں۔ اس تشدد کے خاتمے کے لیے وفاقی حکومت نے متاثرہ اضلاع میں اضافی سکیورٹی تعینات کر دی ہے۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے بتایا ہے کہ ہریانہ کی مقامی جاٹ برادری کی طرف سے شروع ہونے احتجاجی مظاہروں کے پرتشدد رنگ اختیار کرنے کے بعد حکومت نے تین اضلاع میں سینکڑوں فوجی اور نیم فوجی دستے تعینات کر دیے ہیں۔
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق جمعے کو شروع ہونے والے ان مظاہروں کے نتیجے میں ہفتے کی شام تک کم ازکم چار افراد ہلاک جبکہ 78 زخمی ہو چکے ہیں۔ مقامی میڈیا کے مطابق صورت حال کو کنٹرول میں کرنے کی خاطر سکیورٹی فورسز کو براہ راست فائرنگ کی اجازت دے دی گئی ہے۔
مقامی جاٹ برادری ملازمتوں اور تعلیم میں بہتر مواقع کے لیے ایک کوٹہ سسٹم کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ہریانہ کے پولیس سربراہ وائے۔ پی سنگھل نے بیس فروری بروز ہفتہ بتایا کہ مظاہرین نے متعدد ریل روڈ اسٹیشن، دوکانوں اور گاڑیوں کو نقصان پہنچایا، جس کے بعد ان مظاہرین کو منشتر کرنے کے لیے سکیورٹی سخت کر دی گئی ہے۔
سنگھل کے مطابق امن عامہ کی صورت حال کو یقینی بنانے کے لیے سکیورٹی فورسز کو خبردار کیے بغیر براہ راست فائرنگ کی اجازت دے دی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سب سے زیادہ متاثر تین اضلاع ہوئے، جن میں روہتک، بھیونی اور جھاجر شامل ہیں۔
آج ہفتہ کے روز ان اضلاع میں صورت حال انتہائی کشیدہ ہونے کے بعد خصوصی ہیلی کاپٹروں کے ذریعے سکیورٹی فورسز کو وہاں پہنچایا گیا۔ سنگھل نے بتایا ہے کہ ان تینوں اضلاع میں کرفیو بھی نافذ کیا جا چکا ہے۔
جمعے کے دن جاٹ برادری اور حکومتی نمائندوں کے مابین مذاکرات کی ناکامی کے بعد ان احتجاجی مظاہروں میں شدت پیدا ہوئی ہے۔ اس کمیونٹی کا کہنا ہے کہ ریاستی اور وفاقی سطح پر جاٹوں کے لیے ایک کوٹہ سسٹم متعارف کرایا جائے، تاکہ انہیں یونیورسٹی میں تعلیم اور ملازمتوں کے حصول میں یکساں مواقع میسر آ سکیں۔
بھارتی آئین اجازت دیتا ہے کہ ’نچلی ذات‘ کے ساتھ امتیازی سلوک کے خاتمے کے لیے خصوصی اقدامات کیے جائیں۔ حکومت نے کئی بھارتی صوبوں میں کئی نچلی ذاتوں کو ان خصوصی مراعات کو حق دار قرار دے رکھا ہے، جن میں جاٹ برادری بھی شامل ہے۔ لیکن ہریانہ میں جاٹ برادری کو ابھی تک خصوصی مراعات نہیں دی گئی ہیں۔