1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان خواتین کو انتہائی پرتشدد حالات کا سامنا

عابد حسین5 جنوری 2014

افغانستان میں انسانی حقوق کے کمیشن کی خاتون سربراہ نے بتایا ہے کہ گزشتہ برس افغان خواتین کو ظالمانہ حملوں اور پرتشدد واقعات کا تواتر سے سامنا رہا اور اِن واقعات میں کسی طور پر کمی واقع نہیں ہوئی۔

https://p.dw.com/p/1AlOA
تصویر: JOHANNES EISELE/AFP/Getty Images

افغانستان کے آزاد ہیومن رائٹس کمیشن کی سربراہ سیما ثمر کا کہنا ہے کہ افغان خواتین کو گزشتہ برس انتہائی ظالمانہ حملوں اور نامناسب حالات کا سامنا رہا۔ سیما ثمر کے مطابق خواتین کے ساتھ ظلم و جبر کے مسلسل واقعات کو رپورٹ کیا گیا ہے اور اِن میں کھلے عام اِن کے کان اور ناک جیسے اعضاء کو چھری چاقو سے کاٹنا بھی شامل ہے۔ نیوز ایجنسی روئٹرز کو انٹرویو دیتے ہوئے افغان انسانی حقوق کے کمیشن کی سربراہ کے مطابق خواتین کے وقار اور عزت کو پامال کرنے کے لیے اجتماعی آبروریزی سے بھی گریز نہیں کیا گیا۔

Deutscher Medienpreis Entwicklungspolitik 2013 Medienpreis Beitrag Nazakat
طالبان حکومت میں خواتین حجاب اور چہرے کو ڈھانپے بغیر گھر سے نہیں نکل سکتی تھیںتصویر: S. Nazakat

افغانستان میں انتہا پسند طالبان کی حکومت کے دور میں خواتین حجاب اور چہرے کو ڈھانپے بغیر گھر سے نہیں نکل سکتی تھیں۔ سن 2001 میں امریکی قیادت میں اتحادی فوج کی آمد کے بعد سے خواتین کو مرکزی دھارے میں لانے کی کوششوں کا ازسرنو آغاز کیا گیا۔ گزشتہ ایک دو برسوں میں خواتین کے ساتھ روا رکھے جانے والے بہیمانہ طرز عمل کو سیما ثمر نے سزا سے ماورا بےخوف انسانی رویے اور غیر ملکی فوجوں کے رواں برس کے اختتام پر ہونے والے انخلا کے ساتھ نتھی کیا ہے۔ اِس کے علاوہ اُن کا یہ بھی کہنا ہے کو ظلم و جبر کی صورت حال کے باوجود افغان خواتین کے شعور و آگہی میں اضافہ ہوا ہے۔

افغان انسانی حقوق کے ادارے (AIHRC) کے مطابق کئی صوبوں میں بین الاقوامی کمیونٹی اور صوبائی تعمیر نو کے عمل نے جہاں عام انسانوں کو اعتماد دیا ہے وہیں خواتین کو بھی اُن کے حقوق کے حوالے سے روشنی ملی ہے۔ اِس ادارے کی ترجمان کے مطابق گزشتہ برس سن 2012 کے مقابلے میں افغان خواتین کے خلاف پرتشدد جرائم میں پچیس فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔

Afghanistan - Frauen mit Mobiltelefonen
خیال کیا جاتا ہے کہ افغان خواتین کے شعور و آگہی میں اضافہ ہوا ہے۔تصویر: Getty Images

ترجمان کے خیال میں سن 2013 میں مارچ سے ستمبر کے مہینوں کے دوران کا عرصہ خواتین پر ظلم و ستم کے حوالے سے بہت بھاری تھا۔ افغان ادارے کی سربراہ کے مطابق کمزور ہوتی اقتصادیات اور امن و سلامتی کی خراب ہوتی صورت حال بھی خواتین کے خلاف جرائم میں اضافے کا سبب بن رہی ہے۔ خواتین کی سماجی بدحالی کو خواتین کے جلانے یا جِلا کر ہلاک کر دینے کے واقعات میں بتدریج اضافے سے بھی دیکھا جا رہا ہے۔

افغانستان کے کئی صوبوں میں بےسہارا خواتین کے لیے ایک شیلٹر ہاؤس چلانے والی خاتون ثریا پاک زاد کا کہنا ہے کہ افغانستان میں کسی بھی خاتون کو ہلاک کر دینا بہت ہی آسان فعل ہے۔ مغربی افغان شہر ہرات سے نیوز ایجنسی روئٹرز کے ساتھ بات کرتے ہوئے ثریا پاک زاد نے کہا کہ بظاہر قوانین کو مضبوط کیا گیا ہے لیکن اِن قوانین کا مناسب نفاذ ممکن نہیں کیونکہ اِن قوانین کو نافذ کرنے والے جنگی سردار ہیں اور اِس تناظر میں افغان معاشرہ مجموعی طور پر آگے بڑھنے کی بجائے زوال کا شکار ہے۔ ثریا پاک زاد کے مطابق حالیہ کچھ عرصے میں افغان سکیورٹی اہلکاروں کی موجودگی میں کئی خواتین کو پتھر مار مار کر ہلاک بھی کیا گیا ہے۔