1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں ذیابیطس کے سات ملین سے زائد مریض

14 نومبر 2017

پاکستان میں ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد سات ملین سے بھی تجاوز کر گئی ہے۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہی رجحان جاری رہا تو قریب دو عشرے بعد اس بیماری کے شکار پاکستانیوں کی تعداد چودہ ملین یا قریب ڈیڑھ کروڑ ہو جائے گی۔

https://p.dw.com/p/2naVP
Pakistan Islamabad Welt-Diabetes-Tag
تصویر: DW/I. Jabeen

پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج منگل چودہ نومبر کو ذیابیطس کے خلاف آگہی کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ اس دن کی مناسبت سے پاکستان میں طبی شعبے کی نمائندہ تنظیموں اور ذیابیطس کی روک تھام کے لیے سرگرم سماجی اداروں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ذیابیطس، جسے عرف عام میں شوگر کی بیماری کہا جاتا ہے، کے مریضوں کی موجودہ تعداد سات اعشاریہ ایک ملین بنتی ہے۔ اس کے علاوہ مزید سات ملین کے قریب پاکستانی ایسے بھی ہیں، جنہیں اس مرض کا شکار ہو جانے کا شدید خطرہ ہے۔

پاکستان میں صحت عامہ کے لیے اس بڑے خطرے کا تدارک اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس وقت ملک میں شوگر کے مریضوں کی تعداد 7.1 ملین یا ملکی آبادی کا قریب 3.5 فیصد بنتی ہے۔ لیکن سن 2040 تک یہی تعداد 14.4 ملین تک پہنچ ہو سکتی ہے، جس کا مطلب ہو گا سات فیصد پاکستانی ذیابیطس کے مریض اور یہ بات صحت عامہ کے نظام اور ملکی معیشت کے لیے بھی بہت نقصان دہ ہو گی۔

Pakistan Islamabad Welt-Diabetes-Tag Masood Pervez
تصویر: Privat

عالمی ادارہ صحت کے مطابق اس وقت پوری دنیا میں ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد 410 ملین سے زیادہ ہے، جو سن 2040 تک پچاس فیصد سے بھی زیادہ اضافے کے ساتھ 640 ملین ہو جائے گی۔ پاکستان کے لیے تشویش کی بات یہ ہے کہ اس وقت ملک میں سالانہ 80 ہزار سے زائد شہری اس بیماری یا اس کی وجہ سے پیدا ہونے والے طبی پیچیدگیوں کے باعث انتقال کر جاتے ہیں۔ لیکن اگر اس مرض کے پھیلاؤ کو نہ روکا گیا، تو پاکستان بائیس تیئس برس بعد اپنے ہاں شوگر کے مریضوں کی مجموعی تعداد کے لحاظ سے دنیا کا آٹھواں بڑا ملک بن سکتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق اس وقت پوری دنیا میں سب سے زیادہ انسانی ہلاکتوں کا سبب بننے والی دس بڑی بیماریوں میں ذیابیطس چھٹے نمبر پر ہے۔

پاکستان میں ذیابیطس کے تیز رفتار پھیلاؤ کے اسباب کیا ہیں؟ اس بارے میں اس مرض کے علاج کے ماہر ڈاکٹر شہزادالحق نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’یہ بیماری پاکستان میں خطرناک رفتار سے پھیل رہی ہے۔ اس کے بڑے اسباب موٹاپا، تمباکو نوشی، ورزش نہ کرنا اور غیر صحت مند طرز زندگی اور غیر صحت بخش خوراک ہیں۔ ذیابیطس بالعموم فالج اور ہارٹ اٹیک کی وجہ بننے کے علاوہ آنکھوں اور پاؤں کو بھی متاثر کرتی ہے۔‘‘

موٹاپے سے تحفظ، شکر کا روزانہ استعمال آدھا کر دیں

ذیابیطس پر قابو نہ پایا گیا، تو ٹی بی مزید پھیلے گی: محققین

عالمی یوم صحت پر ذیابیطس کے خلاف جنگ

ڈاکٹر شہزادالحق نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا،’’لوگ عام طور پر اپنے چہرے کا تو خیال رکھتے ہیں لیکن پاؤں کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ شوگر کے مریضوں کو اپنے ہاتھ پاؤں بہت صاف اور محفوظ رکھنے چاہیئں اور  ہر مریض کو مناسب ورزش تو ہی کرنی چاہیے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ایک عام انسان کو اس بیماری سے بچنے کے لیے زیادہ چکنائی والی خوراک اور بہت زیادہ بازاری کھانوں سے اجتناب کرنا چاہیے اور ورزش کو اپنا معمول بنا کر پرسکون زندگی گزارنے کی کوشش کرنی چاہیے۔‘‘

پاکستان میں کئی برسوں سے اس مرض کے شکار شہریوں میں سے ایک مسعود پرویز بھی ہیں، جو ایک مقامی پراپرٹی ڈیلر ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’میں شوگر کا مریض ہوں، یہ تشخیص سترہ برس پہلے ہوئی تھی۔ تب سے میں دوائی استعمال کر رہا ہوں۔ اسی دوران میرے پاؤں کے انگوٹھوں پر زخم بھی بن گئے تھے۔ ہڈی تو بچ گئی لیکن ڈاکٹروں کو میرے انگوٹھوں کے نیچے سے گوشت کاٹنا پڑا۔‘‘

مسعود پرویز نے بتایا کہ اب ان کے پاؤں کے زخم تو ٹھیک ہو چکے ہیں، لیکن ساتھ ہی ہڈیاں کمزور ہو چکی ہیں۔ پاؤں اکثر سوج جاتے ہیں اور وہ دن میں چار مرتبہ انسولین کا انجیکشن لیتے ہیں۔ اس سوال کے جواب میں کہ ان کے علاج پر ماہانہ کتنی رقم خرچ ہوتی ہے، انہوں نے بتایا،’’دوائی پر قریب پانچ چھ ہزار روپے ماہانہ خرچ ہوتے ہیں۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اب دوائی نے بھی اثر کرنا چھوڑ دیا ہے۔‘‘

Pakistan Islamabad Welt-Diabetes-Tag
تصویر: DW/I. Jabeen

پاکستان میں ذیابیطس کے عالمی دن کی مناسبت سے رواں ہفتے مختلف طبی تنظیموں کی طرف سے کئی شہروں میں متعدد سیمینارز اور دیگر تقریبات کا اہتمام بھی کیا جا رہا ہے۔ اسلام آباد میں ایسے ہی ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر سائرہ یونس نے شرکاء کو بتایا،’’پاکستان میں جتنی بھی خواتین شوگر کی مریض ہیں، ان میں سے 40 فیصد جوانی میں ہی اس مرض کا شکار ہوئیں۔ دیہی علاقوں میں تو صورت حال اور بھی خراب ہے۔ مریضوں کو اس بیماری کی علامات کا علم ہی نہیں ہوتا اور شروع میں بے احتیاطی بعد میں بڑے طبی نقصانات کی وجہ بنتی ہے۔‘‘ انہوں نے یہ شکایت بھی کی کہ پاکستان میں ذیابیطس کی روک تھام کا وفاقی یا صوبائی حکومتوں کی سطح پر کوئی پروگرام موجود ہی نہیں۔

پاکستان میں کئی ملین شہری غربت کی سطح سے بھی نیچے رہ کر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ایسے شہریوں کے لیے مہنگائی کا مقابلہ کرنے کی ہر روز لڑی جانے والی جنگ کے ساتھ مختلف بیماریاں بھی ایک کڑا امتحان ثابت ہوتی ہیں۔ ایسی ہی ایک مثال چھتیس سالہ شازیہ کی بھی ہے، جو گزشتہ تین سال سے ذیابیطس کی مریضہ ہیں۔

سبزیوں کا استعمال: ذیابیطس میں 14فیصد کمی

آپ بھی ان چار بیماریوں سے خبردار رہیں !

شہروں کی طرف نقل مکانی کے مُضرِ صحت اثرات

 

شازیہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’میرے دو بچے ہیں اور تعلق ایک غریب گھرانے سے۔ شوہر ہیروئن کا نشہ کرتا تھا، جو اس وقت انتقال کر گیا، جب میری عمر انتیس برس تھی۔ چار سال بعد جب میری عمر تینتیس برس تھی، تو ڈاکٹروں نے تشخیص کی کہ میں شوگر کی مریض ہوں۔ اب تین سال ہو گئے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ شوگر زیادہ میٹھا کھانے سے ہوتی ہے۔ ہمیں تو تین وقت کی روٹی بھی مشکل سے ملتی ہے۔‘‘

اس پاکستانی خاتون نے بتایا کہ وہ تو خود اپنی بیماری کی تشخیص بھی نہیں کروا سکتی تھی۔ وہ ایک ڈاکٹر کے گھر صفائی کرنے جاتی تھی اور اسی ڈاکٹر نے مختلف ٹیسٹ کروا کر اسے بتایا تھا کہ وہ ذیابیطس کی مریضہ ہے۔ شازیہ نے بتایا کہ ڈاکٹروں کے مطابق اس کے ذیابیطس کا شکار ہو جانے کی وجہ پریشانیاں اور ذہنی دباؤ بنے،’’بیماریاں تو سب بری ہوتی ہیں، لیکن اب مجھے شوگر کی وجہ سے ہڈیوں میں درد بھی رہتا ہے اور وزن بھی مسلسل گھٹتا جاتا ہے۔‘‘

 

سویڈن کا شوگر فری اسکول