1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شرمندگی کا مطالبہ مظلوم خواتین سے ہی؟

بینش جاوید
17 جنوری 2018

سات سالہ زینب کے ریپ اور قتل کے واقعے کے بعد بہت سی پاکستانی خواتین اپنے اپنے بچپن کی درد ناک کہانیاں بیان کر رہی ہیں، جب انہیں جنسی طور پر ہراساں کیا گیا یا زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔

https://p.dw.com/p/2r1b9
Protest in Karachi nach der Ermordung der siebenjährigen Zainab
تصویر: Faria Sahar

جنسی طور پر ہراساں کیے جانے اور خاص طور پر بچوں پر جنسی تشدد جیسے موضوعات پر گفتگو کرنا قدامت پسند پاکستانی معاشرے میں اب بھی معیوب سمجھا جاتا ہے۔ والدین اس موضوع پر بچوں سے گفتگو کرتے ہوئے ہچکچاتے ہیں تو دوسری جانب پاکستانی اسکولوں کے نصاب میں بھی اس اہم مسئلے کی جانب نہ تو کوئی توجہ دلائی جاتی ہے اور نہ ہی خصوصی لیکچرز وغیرہ کا اہتمام کیا جاتا ہے۔

اس ماہ کے آغاز پر پاکستانی صوبے پنجاب کے شہر قصور میں ایک انتہائی درد ناک واقعہ منظر عام پر آیا۔ ایک سات سالہ مقامی بچی زینب کو بہت ہی درد ناک موت کا سامنا کرنا پڑا۔ اس علاقے میں زینب وہ پہلی بچی نہیں تھی، جسے ریپ کے بعد قتل کر دیا گیا۔ لیکن زندہ زینب کے مسکراتے چہرے کی تصویر نے دنیا بھر میں لوگوں کو دکھی کر دیا۔ اس واقعے پر پورے ملک میں جہاں شدید غم وغصہ دیکھنے میں آیا، وہاں ساتھ ہی بچوں کو جسمانی تحفظ فراہم کرنے سے متعلق ایک بھرپور بحث کا آغاز کم از کم ایک مثبت پہلو تھا۔ پاکستان کی تین نامور خواتین نے اپنے جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے ذاتی تجربات کا کھل کر اظہار کیا۔

پاکستانی اداکارہ نادیہ جمیل نے، جو بچوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھاتی ہیں، اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر لکھا، ''میں صرف چار سال کی تھی، جب مجھے جنسی طور پر ہراساں کیا گیا۔ لوگ مجھے کہتے ہیں کہ اپنے خاندان کی عزت بچانے کے لیے کسی سے اس بات کا ذکر نہ کرو۔ کیا میرے خاندان کی عزت میرے جسم میں ہے؟ میں مضبوط ہوں اور خود پر فخر کرتی ہوں۔‘‘

نادیہ جمیل نے مزید لکھا، ’’مجھے میرے قاری صاحب نے جنسی طور پر ہراساں کیا، میرے ڈرائیور نے اور پھر ایک بہت ہی پڑھے لکھے خاندان کے بیٹے نے جو اب لندن میں ایک کامیاب شادی شدہ تاجر ہے۔ معاشرے کے ہر طبقے میں جنسی حوالے سے ہراساں کیا جانا عام ہے۔‘‘ نادیہ جمیل نے اس ٹویٹ میں لکھا، ’’میرا خاندان اب بھی چاہتا ہے کہ میں خاموش رہوں۔ لیکن میں شرمندہ نہیں ہوں گی، کبھی بھی نہیں۔‘‘

فیشن کوریوگرافر فریحہ الطاف نے ٹوئٹر پر اپنا بہت تلخ تجربہ کچھ یوں بیان کیا، ’’مجھے چھ سال کی عمر میں ہمارے گھر کے باورچی نے ہراساں کیا۔ میرے والدین نے ایکشن لیا لیکن باقی سب خاموش رہے کیوں کہ یہ میرے لیے شرمندگی کا باعث تھا۔ مجھے 34 سال کی عمر میں پتہ چلا کہ اس واقعے نے میری زندگی کو کتنی بری طرح متاثر کیا تھا۔ شرمندگی تو خاموش رہنے میں ہے۔‘‘

ان دونوں خواتین کی ٹویٹس کے بعد پاکستانی فیشن ڈیزائنر ماہین خان نے بھی اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کے بارے میں ایک ٹویٹ کی۔ انہوں نے لکھا، ’’مجھے قرآن پڑھانے کے لیے آنے والے مولوی نے جنسی طور پر ہراساں کیا، جس کے بعد میں انتہائی خوفزدہ ہو گئی تھی۔‘‘

پاکستان کی کئی اہم شخصیات نے ان خواتین کی سماجی ہمت کو سراہا ہے۔ بہت سے افراد کی رائے میں زینب کی درد ناک موت نے پاکستانی معاشرے کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے۔ سوشل میڈیا پر بہت سے لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اگر ریاست اور بالغ شہری ہی ’ننھے فرشتوں‘ کی حفاظت نہیں کریں گے تو معصوم زندگیاں ضائع ہوتی رہیں گی اور ’بہت سے پھول ہمیشہ کے لیے مرجھاتے‘ رہیں گے۔