سعودی اینٹی کرپشن مہم سے حکومت کو چار سو ارب ریال کی آمدنی
30 جنوری 2018سعودی دارالحکومت ریاض سے منگل تیس جنوری کو موصولہ نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق ملکی اٹارنی جنرل شیخ سعود المجیب نے آج بتایا کہ حکومت نے ملک بھر میں بدعنوانی کے خلاف گزشتہ برس کے اواخر میں جو وسیع تر مہم شروع کی تھی، اس دوران کل 381 انتہائی امیر اور بہت بااثر سعودی شخصیات کو حراست میں لیا گیا تھا۔
پرنس الولید بن طلال کو رہا کر دیا گیا ہے، خاندانی ذرائع
سعودی حکومت پر تنقید، شہزادہ ملازمت سے برطرف
ان میں بہت بڑی بڑی کاروباری شخصیات اور موجودہ اور سابقہ اعلیٰ حکومتی عہدیدار بھی شامل تھے۔ شیخ سعود المجیب کے مطابق اب تک ان میں سے 316 ارب پتی اور کھرب پتی سعودی باشندوں کو دوبارہ رہا کیا جا چکا ہے جبکہ 65 تاحال حکام کے حراست میں ہیں۔ ان تمام شخصیات کو رشوت اور بدعنوانی کے الزامات یا کرپشن کے شبے میں حراست میں لیا گیا تھا۔
شیخ سعود المجیب نے بتایا کہ ان مشتبہ افراد میں سے جو بے قصور پائے گئے، انہیں تو ویسے ہی رہا کر دیا گیا جبکہ جن پر کرپشن کے الزامات ثابت ہو گئے اور جنہوں نے اپنے مالی بے قاعدگیوں میں ملوث ہونے کا اعتراف بھی کر لیا تھا، ان میں سے کئی کو حکومت کو مالی ادائیگیوں سے متعلق تصفیے کے بعد چھوڑ دیا گیا۔ لیکن انہی میں سے بہت سے افراد ابھی تک حکام کی حراست میں بھی ہیں۔
سعودی اٹارنی جنرل کی طرف سے ساتھ ہی یہ بھی بتایا گیا کہ سینکڑوں زیر حراست سعودی شہریوں میں سے جن کو ادائیگیوں کے تصفیوں کے بعد رہا کیا گیا، ان سے ریاض حکومت کو نقد رقوم یا مختلف اثاثوں کی صورت میں مجموعی طور پر 400 ارب ریال یا 107 ارب امریکی ڈالر کے برابر آمدنی ہوئی۔ ان اثاثوں میں غیر منقولہ املاک، تجارتی نوعیت کی جائیدادیں اور حصص یا مالیاتی بانڈز بھی شامل ہیں۔
سعودی حکومت کے خلاف احتجاج پر مزید گیارہ شہزادے گرفتار
سعودی عرب: سیاسی انتقام یا حقیقی اصلاحات
سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات ميں ٹيکس کی چھُوٹ ختم
جو 65 سعودی شہری تاحال حراست میں ہیں، ان کے ساتھ حکومت کا ابھی تک کوئی مالی تصفیہ اس لیے نہیں ہو سکا کہ ان کے خلاف تحقیقات یا تو ابھی جاری ہیں یا پھر ان کے خلاف مجرمانہ نوعیت کے مقدمات ابھی التواء میں ہیں۔
نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس نے لکھا ہے کہ کرپشن کے الزام میں زیر حراست سعودی شہریوں میں سے جن کو گزشتہ ویک اینڈ پر رہا کیا گیا، ان میں شہزادہ الولید بن طلال بھی شامل ہیں، جو دنیا کے امیر ترین افراد میں شمار ہوتے ہیں۔
الولید بن طلال ان کم از کم 11 سعودی شہزادوں اور درجنوں انتہائی کامیاب کاروباری شخصیات میں سے ایک تھے، جنہیں اس ملک گیر اینٹی کرپشن مہم کے آغاز پر گزشتہ برس چار نومبر کو حراست میں لیا گیا تھا۔
یہ رپورٹیں بھی ملی ہیں کہ جن انتہائی بااثر اور سعودی شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والی درجنوں شخصیات کو نومبر 2017ء میں اس مہم کے آغاز پر حراست میں لے کر دارالحکومت ریاض کے انتہائی مہنگے رٹس کارلٹن ہوٹل میں نظر بند کر دیا گیا تھا، اب وہ تمام مشتبہ افراد بھی رہا کر دیے گئے ہیں۔
فلسطینی ارب پتی تاجر سعودی عرب میں زیر حراست
بدعنوانی میں ملوث سعودی وزراء اور شہزادے فارغ
سعودی حکومت کے ایک اعلیٰ اہلکار نے اپنا نام ظاہر کیے بغیر روئٹرز کو بتایا، ’’اب ریاض کے رٹس کارلٹن ہوٹل میں کوئی بھی سعودی شہری حکومتی حراست میں نہیں ہے۔‘‘ اس ہوٹل کی ویب سائٹ کے مطابق ریاض کا یہ انتہائی پرتعیش اور مہنگا ہوٹل فروری کے وسط سے عام مہمانوں کے لیے دوبارہ کھول دیا جائے گا۔