1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دہشت گردی اور انتخابی مہم پر خوف کے سائے

شیراز راج
17 جولائی 2018

پاکستان میں عام اںتخابات سے پہلے گزشتہ چند دنوں میں دہشت گردانہ واقعات کے نتیجے میں دو امیدواروں سمیت ڈیڑھ سو سے زائد افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہو چکے ہیں۔

https://p.dw.com/p/31bA4
Pakistan Selbsmordanschläge
تصویر: picture-alliance/Xinhua/Irfan

بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں ہونے والے ان حملوں کی ذمہ داری طالبان، لشکر جھنگوی اور داعش جیسے دہشت گرد گروہوں نے قبول کی تھی۔ تاہم غلام احمد بلور کا دعویٰ ہے کہ ہارون بلور کو طالبان نہیں بلکہ ’اپنے‘ لوگوں نے مارا ہے۔

دس جولائی کو خیبر پختونخوا کے حلقہ پی کے 78 میں اے این پی کی انتخابی ریلی میں ہونے والے خود کش دھماکے میں ہارون بلور سمیت 23 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اس واقعے کے بعد کئی سیاسی تجزیہ کاروں نے سن 2013 کے انتخابات کا حوالہ دینا شروع کر دیا تھا جب طالبان نے اسی جماعت کے سینکڑوں کارکنوں اور رہنماؤں کو ہلاک کر دیا تھا۔ علاوہ ازیں اس وقت دہشت گردانہ حملوں ہی کے باعث پاکستان پیپلز پارٹی کی انتخابی مہم بھی اندرون سندھ تک محدود ہو کر رہ گئی تھی۔ تجزیہ کاروں کے مطابق، گزشتہ انتخابات میں دہشت گرد تنظیمیں انتخابی عمل سے باہر رہ کر بھی پاکستانی سیاست پر اپنی ترجیحات مسلط کرنے میں کامیاب ہو گئیں تھیں۔ تاہم اس وقت بھی اے این پی کے بعض مرکزی راہنماؤں کا الزام تھا کہ صرف طالبان ہی نہیں بلکہ مبینہ طور پر پاکستان کی ’مقتدر‘ قوتوں نے بھی صوبہ خیبر پختونخوا پاکستان تحریک انصاف کو ’دے دینے‘ کا فیصلہ کر لیا تھا۔   

ہارون بلور کے چچا اور اے این پی کے سینیئر رہنما، غلام احمد بلور کا یہ تازہ بیان ایک مرتبہ پھر اسی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ ان کے مطابق، ’’یہ دھماکا طالبان نے نہیں کیا۔ طالبان کو اس سے کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا۔ ہارون بلور کو ہمارے اپنے لوگوں نے مارا ہے، میرے پاس تمام تفصیلات ہیں۔‘‘ غلام احمد بلور خود ایک خود کش حملہ کا شکار ہوئے لیکن خوش قسمتی سے محفوظ رہے۔ اس مرتبہ وہ خیبر پختونخوا سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 35 سے انتخابات لڑ رہے ہیں۔ یاد رہے کہ ان کے بھائی اور ہارون بلور کے والد بشیر احمد بلور بھی سن 2012 میں دہشت گردوں کے ہاتھوں ہلاک ہو گئے تھے۔ 

اے این پی پر حالیہ حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے طالبان کے ترجمان کا کہنا تھا کہ وہ اس جماعت کے ساتھ ’پرانا حساب چکتا‘ کر رہے ہیں کہ جب اس نے اپنے دور اقتدار میں تحریک طالبان پاکستان کے خلاف سوات آپریشن میں بھرپور کارروائیاں کی تھیں۔ طالبان نے مزید حملوں کی دھمکی بھی دے رکھی ہے۔ 

دوسری طرف مستونگ خودکش حملے کی ذمہ داری داعش اور لشکر جھنگوی دونوں نے قبول کی ہے۔ اس خونریز حملے نے ملک میں انتخابی ماحول کو نہ صرف سوگوار بلکہ ایک حد تک سکتہ زدہ کر گیا۔ ایک طرف داعش، لشکر جھنگوی اور تحریک طالبان پاکستان بلواسطہ طور پر انتخابات پر اثرانداز ہو رہے ہیں تو دوسری جانب ملی مسلم لیگ، اہل سنت والجماعت، تحریک لبیک پاکستان سمیت کئی انتہا پسند خیالات کے حامل مذہبی گروہوں کو ’قومی دھارے‘ میں لانے کے نام پر مرکزی سیاسی عمل میں شامل ہونے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے روایتی مذہبی جماعتوں کے سینکڑوں امیدوار بھی ملک بھر سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں اور اپنی انتخابی مہموں کے دوران بڑے اجتماعات کرنے میں بھی کامیاب ہو رہے ہیں۔      

’پاکستان کے جمہوری سفر کو پورپی کمیشن سراہتا ہے‘

دوسری طرف پاکستان الیکشن کمیشن کو بریفنگ دیتے ہوئے ’نیکٹا‘ کے ذمہ دار افسر، ڈاکٹر سلمان خان نے یہ کہ کر سبھی کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا کہ 25 جولائی کے عام انتخابات کے حوالے سے کوئی ’سنجیدہ خطرہ‘ نہیں۔ اس سے قبل 9 جولائی کو نیکٹا ہی نے سینٹ کمیٹی کے سامنے بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ موجودہ انتخابات کے موقع پر سیاسی جماعتوں کی اعلٰی قیادت کو شدید خطرہ ہے۔ ادارے کی جاری کردہ فہرست میں تحریک انصاف، اے این پی، اور قومی وطن پارٹی کے سربراہوں کے علاوہ چھ دیگر افراد کی نشاندہی بھی کی تھی۔ ان افراد میں خیبر پختونخوا کے سابق وزیر اعلٰی اکرم درانی کا نام بھی شامل تھا جن پر 13 جولائی کو بنوں میں حملہ ہوا۔ اس حملہ میں وہ خود تو محفوظ رہے لیکن ان کے چار ساتھی شہید ہو گئے۔ 

بلوچستان کے گورنر ہاؤس میں ایک اعلٰی سطحی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے پاکستان کے نگران وزیراعظم جسٹس (ریٹائرڈ) ناصر الملک نے سکیورٹی اداروں کو ہدایات جاری کرتے ہوئے کہا، ’’انتخابی مہموں کے دوران امیدواروں اور لوگوں کے تحفظ کے لیے ہر ممکنہ اقدامات کیے جائیں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ سیاسی قیادت کو سکیورٹی انتظامات سے آگاہ رکھا جائے اور ان کے تعاون سے تمام اقدامات کیے جائیں تاکہ، ’’مزید کسی افسوسناک حادثہ سے بچا جا سکے۔‘‘

اس صورت حال سے متعلق ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے قومی وطن پارٹی کے سربراہ میر حاصل خان بزنجو کا کہنا تھا، ’’بلوچستان میں دہشت گرد اور انتہا پسند سیاسی جماعتوں میں سرایت کر چکے ہیں۔ دہشت گردی کے بیش تر واقعات کوئٹہ یا مستونگ میں ہوئے ہیں۔ ان دونوں علاقوں میں کالعدم جہادی اور فرقہ پرست تنظیموں کا بہت زور ہے۔‘‘ بزنجو کا مزید کہنا تھا کہ دہشت گردی بنیادی طور پر خفیہ اداروں کی ناکامی ہے کیوں کہ ان کا خاتمہ کرنا انہی اداروں کا کام ہے۔ تاہم انہوں نے اس خیال کو مسترد کیا کہ ان واقعات کے پیچھے ملکی ’اسٹیبلشمنٹ‘ کا ہاتھ ہے، ’’یہ کہنا غلط ہو گا کہ اسٹیبلشمنٹ ان دہشت گردوں کو استعمال کر رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ طالبان قومی سیاست کرنے والی ترقی پسند جمہوری قوتوں کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔‘‘ 

سوات میں طالبان کے خوف کے بغیر انتخابی مہم جاری

کوئٹہ کے ادبی حلقوں میں احترام کی نگاہ سے دیکھے جانے والے علی بابا تاج نے ڈی ڈبلیو اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کو اسٹیبلشمنٹ کے ایجنڈے یا محض انتخابات سے جوڑنا درست نہیں ہو گا لیکن یہ بات یقینی ہے کہ انتخابی ماحول پر منفی اثر پڑے گا۔ تاج کا کہنا تھا، ’’گزشتہ چند دہائیوں سے بلوچستان لہو لہو ہے۔ ان حالات کو روکنے کی پیش بندی بہت پہلے سے کی جانا چاہیے تھی۔ بلوچستان میں ہزاروں لوگ دہشت گردی کا شکار ہو چکے ہیں۔ اس کا سدباب تو درکنار کوئی ایسا سنجیدہ تحقیقی کام نہیں ملتا کہ پتا چل سکے کہ ان کی کل تعداد کتنی ہے۔ صرف ہزارہ برادری کے تین ہزار سے زیادہ لوگ ہلاک ہو چکے ہیں۔ ہم سب یہ بات جانتے ہیں کہ پاکستان میں ستر ہزار افراد دہشت گردی کا نشانہ بن چکے ہیں۔‘‘ 

جرمنی میں مقیم بلوچستان کی سیاسی تاریخ پر نظر رکھنے والے صحافی حبیب بلوچ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’بلوچستان کے قوم پرست حلقے سراج رئیسانی کو اسٹیبلشمنٹ کا آدمی سمجھتے تھے۔ ان پر یہ الزام بھی لگایا جاتا تھا کہ مذہبی جماعتوں اور دہشت گرد گروہوں کے ساتھ بھی ان کے تعلقات تھے۔‘‘ اس قتل کے ممکنہ مقصد کے بارے میں ان کا کہنا تھا، ’’یہ دہشت گردوں کی جانب سے پورے پاکستان کے جمہوریت نوازوں، قوم پرستوں اور ترقی پسندو‍ں کے لیے ایک دھمکی ہے۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں